جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہےکہ ملک کے اندر تمام معاملات قومی اتفاق سے حل ہونے چاہئیں اسٹبلشمنٹ لوگوں کے ووٹ کا مذاق اڑاتی ہے، عوام پھر اسٹبلشمنٹ کا کیوں مذاق نہ اڑائیں اسٹبلشمنٹ کا غیر سیاسی ہونا بھی سیاسی ہوتا ہے، پی ٹی آئی نے مذاکرات کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا،معیشت کی بہتری پر حقائق سامنے آنے چاہئیں،سیاستدانوں پر افسوس ہے کہ سمجھوتہ کرلیتے ہیں، ملک کا نظام بہتر کرنے کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو کراچی میں جامعہ صدیقیہ گلشن معمار میں جامعہ کے بانی و رئیس مولانا منظور مینگل کی دعوت پر تقریب میں شرکت کے بعد پریس کانفرنس۔ مولانا فضل الرحمن نے بطور مہمان خصوصی جامعہ صیدیقیہ کی سالانہ تقریب دستاربندی سے بھی خطاب کیا ۔ اس موقع پر پیر سید مختار الدین شاہ، جےیوآئی سندھ کے سیکریٹری جنرل مولانا راشد محمود سومروم، سابق رکن قومی اسمبلی مولانا قمر الدین ، مولانا امداد اللہ یوسفزئی ، انجینئر عبد الرزاق عابد لاکھو ، قاری محمد عثمان ، مولانا محمد غیاث ، مولانا سمیع سواتی ، مولانا آیت الرحمان اور مولانا حسین آصفی بھی موجود تھے۔
مولانا فضل الرحمان کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی سطح پر مدارس کی رجسٹریشن کے لیے قانون سازی ہو چکی ہے صوبائی حکومتیں کیوں قانون سازی میں تاخیر کر رہی ہئں جب قومی سطح پر ایک قانون بن چکا ہے تو صوبائی سطح پر فوری طور پر قانون سازی کے ذریعے عملدرآمد کیا جائے ، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مدارس رجسٹریشن میں ریلیف دیا گیاہے ، ہمیں اعتراض نہیں ہے حکومت نے کچھ مدارس کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات کئے ہیں۔ خالد مقبول صدیقی میرے بہت اچھے ساتھی ہیں میں ان کی بہت قدر کرتا ہوں، مدارس بل کے حوالے سے وہ میرے پاس بھی اسے سمجھنے کے لئیے آتے رہے ہیں ، وہ وفاقی وزیر ہیں مگر میرے گھر وہ زیر تعلیم ہیں ۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ معیشت کی بہتری پر حقائق سامنے آنے چاہئیں، معیشت کی بہتری کے صرف اشاریے مل رہے ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری ہماری آرزو ہے، عوام کو ثمرات ملیں گے تو ثابت ہوگا معیشت بہتر ہوئی۔ جب تک روپے کی قدر کو تقویت نہیں ملے گی عام آدمی کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا، ہمیں نہیں پتا وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ سیاستدانوں پر افسوس ہے کہ سمجھوتہ کرلیتے ہیں، ملک کا نظام بہتر کرنے کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا ہوگا۔ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا معاملہ اتفاق رائے سے طے ہونا چاہئے ۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو صرف اتھارٹی قائم رکھنا ہے انہیں جائز ناجائز کی کوئی پرواہ نہیں۔ اسٹبلشمنٹ لوگوں کے ووٹ کا مذاق اڑاتی ہے، عوام پھر اسٹبلشمنٹ کا کیوں مذاق نہ اڑائیں، اسٹبلشمنٹ کا غیر سیاسی ہونا بھی سیاسی ہوتا ہے۔ شکایت سیاست دانوں سے ہے، جو آئین، جمہوریت اور اصولوں پر سمجھوتہ کرلیتے ہیں، اصل گرفت انہیں کی ہے، ملک پر اپنی گرفت بنائے رکھنے کے لیے جمہوریت کا ڈھونگ رچا رکھا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ اقتدار ان کے اپنے ہاتھ میں رہے، خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ہم لوگ صرف پارلیمنٹ میں بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہو تو ایسے میں عوام کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ عوام کا مذاق اڑا رہے ہیں، ایسے میں عوام ان کا مذاق نہیں اڑائیں گے؟
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب ان کا مذاق اڑایا جائے یا تنقید کی جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں، ہم اپنے موقف پر قائم ہیں اور رہیں گے، 2018 کے الیکشن میں بھی ہم نے یہی موقف اپنایا تھا، ہم ایسے لوگوں سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ حالیہ عام انتخابات کے حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2024ء کے انتخابات ٹھیک ہوئے تھے؟، موجودہ حکمرانوں کے پاس عوام کا درست مینڈیٹ ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نادرا نے سپریم کورٹ پر ایک حلقے پی پی 7 کے ووٹوں کی جانچ پڑتال کی، جس کی رپورٹ میں انہوں نے بتایا کہ صرف 2 فیصد ووٹوں کی تصدیق ہوسکی، 98 فیصد ووٹوں کا کچھ علم نہیں ہوسکا کہ یہ کہاں سے آئے؟ اسی طرح پی پی 45 میں جیتنے والا امیدوار کسی ایک پولنگ اسٹیشن سے بھی نہیں جیتا، یہ بالکل مذاق ہے۔ ایک سوال پرکہا کہ وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات ذاتی نوعیت کی ہوئی ہے، وہ میرے گھر آجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدتیں مارشل لا بھی پورا کرلیتی ہیں، مدت پوری کرنا الگ بات ہے اور حکومت کا جائز یا ناجائز ہونا الگ بات ہے۔