Karachi
Current weather
Humidity-
Wind direction-
Advertisement

عدم اعتماد تحریک، اسپیکر کی رولنگ پر سماعت مکمل، فیصلہ آج شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا

Stay updated - Follow TOK on WhatsApp for instant alerts!
0:00 / --:--
Advertisement

وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کے اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا۔

 

سپریم کورٹ میں جمعرات کوتحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہے اور یہ سامنے آچکا ہے،اب آگے کیا ہونا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے،قومی مفاد اورعملی ممکنات دیکھ کرہی آگے چلیں گے ۔

 

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا اور ملک کو استحکام کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا، میرا مدعا نئے انتخابات کا ہے۔

Advertisement

 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا ہے، عدالت نے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں اور ہم نتائج پر نہیں جائیں گے۔

 

عدالت عظمیٰ میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی اور اسپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کمزور نہیں بلکہ مضبوط حکومت چاہیے۔

 

Advertisement

شہباز شریف نے کہا کہ اگر عدالت اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ہے تو نتیجتاً وزیر اعظم کے اقدامات ختم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ختم کی گئی اسمبلی بحال ہوجائے گی، آئین کو جیسے توڑا گیا اور معطل کیا گیا وہاں نتائج بھی ہوں گے۔ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔

 

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی اور ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کے لیے اپنا خون پسینہ بہائیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟ شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی، شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔

Advertisement

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کتنا دورانیہ رہے گا؟ شہباز شریف نے بتایا کہ ڈیڑھ سال پارلیمنٹ کا ابھی باقی ہے، اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کریں گے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے۔

 

اٹارنی جنرل کے دلائل سے قبل اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے میٹنگ منٹس سپریم کورٹ میں پیش کیے تھے جس میں انشکاف ہوا کہ وزیر خارجہ اور مشیر قومی سلامتی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

 

Advertisement

میٹنگ منتس پیش کیے جانے کے بعد عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فارن منسٹر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ نوٹس بھجوایا گیا تھا۔ عدالت نے پھر استفسار کیا کہ نوٹس تو چلا گیا، ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ قومی سلامتی میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ نعیم بخاری نے کہا کہ لگتا ہے اس میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈوائزر قومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی اس میں موجود نہیں ہے۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔

 

نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کر دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔

Advertisement

 

جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی، چیف جسٹس کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا پوائنٹ آف آرڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جبکہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہیں، رولنگ پر ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کہاں ہیں، پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی بھی ظاہر نہیں ہوتی۔ نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے۔

 

دلائل کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نےنعیم بخاری سے استفسار کیا تھا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا تو کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟

 

Advertisement

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا زیر التواء تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے، اب نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا اور اب معاملے عوام کے پاس ہے، اس لیے سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔

 

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناؤنس کر دے۔ الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔

 

وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں اور عدالت کے سامنے معاملہ ہاوس کی کارروائی کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔

Advertisement

 

امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے بلکہ عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب وزیراعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔

 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔

 

Advertisement

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟

 

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا اور پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی اور عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔

Advertisement

 

امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا اور اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا جبکہ اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 69 کو ارٹیکل 127 سے ملاکر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

 

Advertisement

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں، جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ معذرت کےساتھ مائی لارڈ، 7 رکنی بینچ کے آپ پابند ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں اور عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔

 

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔

 

چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟

Advertisement

 

جواب میں وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی۔ استفسار کیا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟

 

Advertisement

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا لیکن وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔

 

Share

Follow Times of Karachi on Google News and explore your favorite content more quickly!
Leave a Reply
Related Posts
🚫 Ad blocker detected. Please disable your ad blocker to support our content.
Close Button
Advertisement