پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی زیر صدارت فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں آئی جی سندھ کی عدم موجودگی پر برہمی اور سندھ میں خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں سزا کی شرح صفر فیصد ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
بریفنگ کے دوران حکام نے ممبران کو بتایا کہ آئی جی آفس میں ہیلپ لائن 1715 پر کال کر کے شکایات درج کرائی جا سکتی ہیں۔ ایک بار شکایت کی اطلاع ملنے پر متعلقہ افسر فوری جواب دیتا ہے۔
کمیٹی کو زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی (زرا) کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی جس نے عوام کے لیے شکایت کے عمل کو آسان بنایا ہے۔ اراکین نے عوامی بیداری بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا اور اہم معلومات کو پھیلانے کے لیے میڈیا کے نمائندے رکھنے کی تجویز دی۔
سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے کہا کہ لوگ عدالتوں اور پولیس کے خوف کی وجہ سے ایسے مقدمات اندراج نہیں کرواتے اور گھریلو تشدد کے کیسز میں زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کو اکثر جان لیوا حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بدسلوکی کرنے والوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کی وزارت کے سیکرٹری کے مطابق دیہی علاقوں میں ایسے کیسز کی رپورٹنگ اکثر کم ہوتی ہے اسی کے ساتھ حکام نے اعتراف کیا کہ صوبوں کی طرف سے ڈیٹا شیئر نہیں کیا جاتا جس سے مجموعی طریقہ کار کمزور ہوتا ہے
چیئرپرسن نے اس بیان کو تسلیم کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اکثر ان علاقوں میں طاقت ’’جرگوں‘‘ کے پاس ہوتی ہے اور آئی جی ان مسائل کو اہم نہیں سمجھتے ہیں تو ان کو صحیح طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1058 ریگولر کیسز میں سے 985 اب بھی زیر التوا ہیں اور یہ جاننا ضروری ہے کہ معاملات کہاں غلط ہو ئے۔
سینیٹر ممتاز زہری نے کہا کہ ہمیں تحقیقات اور استغاثہ کے ساتھ اہم مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ پراسیکیوٹرزکا کردار مشکوک ہوتا ہے ۔ اہلکاروں کو مناسب طریقے سے تربیت دینا ملک کے قومی مفاد کے لیے اہم ہے۔
کم عمر بچیوں کی شادیوں سے متعلق مسائل پر بھی بات کرتے ہوئے حکام نے اعتراف کیا کہ صوبوں کی طرف سے ڈیٹا شیئر نہیں کیا جاتا، جس سے مجموعی میکانزم کمزور ہوتا ہے۔ارکان نے یہ بھی کہا کہ جب کوئی بچہ عصمت دری، چھیڑ چھاڑ یا بدسلوکی کا شکار ہوتا ہے، تو والدین اکثر معاشرتی خوف سے اس کی اطلاع دینے سے کتراتے ہیں۔
چیئرپرسن کمیٹی نے اجلاس میں آئی جی سندھ کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کی موجودگی، گھریلو تشدد، زیادتی، قتل اور بے گناہوں کے خلاف جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متعلق اہم مسائل سے نمٹنے کے بارے آگاہی کے لئے ضروری تھی۔
کمیٹی نے سڑکوں پر رفتار کی حد کے نشانات نہ ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن نے کہا کہ سڑک حادثات کی بنیادی وجہ غیر قانونی لائسنس حفاظتی ہیلمٹ نہ پہننے کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور گاڑیوں پر حقیقی نمبر پلیٹس کی عدم موجودگی ہے۔
ڈی آئی جی ٹریفک نے بتایا کہ سڑک حادثات میں زیادہ تر ہلاکتیں موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان ہلاکتوں کی بنیادی وجوہات دو عوامل ہیں جس میں یا تو موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتا یا اس کے پاس ریئر ویو مرر نہیں ہونا شامل ہے۔