کہیں سے ہارن کی آوازیں تو کہیں بسوں پر لٹکے کنڈیکٹرز کی صدائیں۔ کراچی کی سڑکوں پر سفر کرنا کسی امتحان سے کم نہیں۔ شہر کا بے ہنگھم ٹریفک جہاں شہریوں کی ضروریات پوری نہیں کرپارہا وہیں ماحول کو تباہ کرنے کا سبب ضرور بن رہا ہے ۔ ماحولیاتی تنظیموں نے گاڑیوں کے دھویں ،فٹنس اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس حوالے سے قومی موسمیاتی تبدیلی کونسل کی رکن آفیہ سلام نے ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نہ صرف کراچی بلکہ اس طرح کے دیگر شہروں میں بھی فضائی آلودگی کے اندر گاڑیوں کے دھواں کا تناسب بہت زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ فیول ہے دوسرا اس کا براہ راست اثر لوگوں کی صحت پر پڑتا ہے ہمارے ہاں اتنی زیادہ گرینری بھی نہیں ہے اور نہ ہی اتنے زیادہ پودے یا درخت ہیں شہر میں لوگوں کے تناسب اور شہر کے بلڈپ ایریا کے تناسب سے کہ وہ بھی فضائی آلودگی کو اپنے اندر جزب کر کے کچھ اس کا اثر کو کم کرسکیں۔
روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں فضائی آلودگی میں اضافے کی 90 فیصد وجہ یہاں کا ٹرانسپورٹ ہے۔ کراچی میں موجود تقریباً 17 لاکھ گاڑیاں 30 لاکھ موٹر سائکل اور رکشوں کے شور نے فضائی اور صوتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ۔ شہر مین چلنے والی 50 فیصد گاڑیاں فٹنس کے معیار پر پورا نہیں اترتیں جبکہ 70اور80کی دہائی میں رجسٹرڈ ہونے والی گاڑیوں نے شہر کی فضا کوانتہائی خطرناک بنادیاہے۔
شہرقائد میں بسوں کی تعداد ضرورت سے کئی گنا کم ہے اور جو موجود ہیں انکا حال بھی شہریوں کو اپنی ذاتی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ عام طور پر ایک منی بس میں 50 جبکہ بڑی بس میں 70 سے 80 افراد سفر کرتے ہیں ۔ مگر کراچی میں ٹرانسپورٹ نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر افراد کاروں یا موٹرسائیکل پر سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں ایک بس سے نکلنے والے دھویں کی جگہ 50 گاڑیوں کا دھواں فضائی آلودگی کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے ۔ شہر میں ماس ٹرانزٹ منصوبے کی بھی کئی بار آوازیں بلند ہوچکی ہیں لیکن عملی اقدامات اب تک سوالیہ نشان ہیں۔
وزیرٹرانسپورٹ شرجیل میمن کے مطابق اورنج لائن بی آر ٹی جسے ہم عبدالستار ایدھی لائن کہتے ہیں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں اور ابھی یلو لائن بی آر ٹی جو ایک پروجیکٹ ہم ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر کر رہے ہیں اس پر بھی کام شروع ہو چکا ہے اس میں جو جام سادق بریج کہلاتا ہے اس پر بھی کام چل رہا ہے اور اس کا ابھی ایک سیکنڈ کمپوننٹ بس ڈپوز اس پر بھی ہماری کوشش ہے انشاءاللہ کام شروع ہو جائے
یورپی انسویسمنٹ بینک کے ایک سروے کے مطابق حراسانی اور دیگر سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر خواتین پبلک ٹرانسپورٹ کے بجائے ذاتی سواری کو ترجیح دیتی ہیں، تاہم کراچی سمیت پاکستان بھر میں خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ کراچی میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے خواتین کے لئے پنک بس کا آغاز بھی کیا ہے۔ خواتین کے کارپولنگ کے استعمال کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی مختلف این جی اوز نے خواتین کیلئے کراچی میں دستیاب ٹرانسپورٹ کو ناکافی قرار دیا ہے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن میر ذوالفقارعلی نے ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایک دو بسیزجومتعارف کروائی ہیں خاص طور پہ خواتین کے لیے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ نا کافی ہیں اسے بڑھانے کی ضرورت ہے اور جو عام بسیز ہیں جس میں تمام لوگ بیٹھتے ہیں مرد خواتین دونوں، اس میں بھی خواتین کی سیٹوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس میں سیکیورٹی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ان بسوں میں حراسمنٹ کے کیسز کافی ہوتے رہتے ہیں۔
1963 سے دنیا بھر میں فضائی آلودگی کو جانچنے کا کام کر نے والی کمپنی آئی کیو ایئر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے دو بڑے شہر لاہور اور کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں ۔ جہاں فضائی آلودگی زیادہ تر 151 سے 200 پرٹیکولیٹ میٹرز کے درمیان رہتی ہے جو انسانوں کے لئے غیر صحت مند ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق کاربن مونو آکسائیڈ، سیسہ، نائٹروجن آکسائیڈز، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربنز فضا زیادہ آلودہ کرتے ہیں اور فضا میں ان ہی عناصر کی مقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے آلودگی کی جانچ کی جاتی ہے۔
فضائی آلودگی کے حوالے سے وزیرٹرانسپورٹ سندھ شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کو ٹرانسپورٹ سے ہونے والی آلودگی کا اندازہ ہے اسی لئے کراچی میں الیکٹرک بسوں کی شروعات کی گئی اور مستقبل میں ماحول دوست ٹیکسیاں بھی لانے کا منصوبہ ہے۔
شرجیل میمن نے اس حوالے سے کہا کہ جس طرح سندھ حکومت پاکستان میں پہلی بار ای وی بسز لے کر آئی ہےاوراسی طریقے سے ای وی ٹیکسز بھی لے کر آرہے ہیں اور ای وی ٹیکسز بھی ہماری دو طریقے کی ہوں گی ایک مرد حضرات یا فیملیز کے لیے اور ایک ٹوٹل خواتین کے لیے ہوگی اس میں ہم پنک ٹیکسز بھی شروع کرنے جا رہے ہیں جن میں خواتین ڈرائیور ہوں گی اوراس سے خواتین کو روزگار بھی ملے گا پنک ٹیکسز سے خواتین پیسنجرز بغیر کسی پریشر، ڈر و خوف کے وہ آرام سے سفر کریں گی
روزنامہ امت کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں اس وقت فضا کا معیار چیک کرنے والا کوئی سرکاری میکانزم موجود نہیں۔ تاہم شہر میں 3 مقامات پر فضا کا معیار جانچنے والے آلات کام کر رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے حکومتی سطح پر بڑے اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔