سندھ کے ساتھ مسلسل زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے،گیس لوڈ شیڈنگ اسی پالیسی کا تسلسل ہے، شرجیل انعام میمن

سندھ اسمبلی کے اجلاس میں سندھ کے سینئیر وزیر  وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ سندھ کے ساتھ مسلسل زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے اور گیس کی موجودہ لوڈ شیڈنگ اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔ گیس لوڈشیڈنگ بھی زیادتیوں کا تسلسل ہے جو صوبے کے ساتھ کی جا رہی ہیں۔ آئین کہتا ہے جہاں سے گیس نکلے وہاں پہلے دو۔ تمام ممبران عوام کو جوابدہ ہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ آئین پاکستان میں جو لکھا ہے اس پر عمل کریں  پہلے شہروں میں گیس ہوتی تھی گائوں میں لوگ لکڑیاں جلاتے تھے مگر اب گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں بلکہ گیس موجود ہی نہیں ہے ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی سولہ سترہ گھنٹے کی جاتی ہے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے گیس جہاں سے نکل رہی ہے وہاں پہلے سپلائی کرے ۔تمام صوبے ہمارے ہیں سب صوبوں کے ساتھ ہمیں بھی گیس دیں – گیس کمپنیز کی ذمہ داری ہے کہ انفرااسٹرکچر کو بہتر کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس تحریک التوا کو پاس کرکے وفاق کو بھیجیں گے۔ ایم کیو ایم کے دوست بھی وفاق کے سامنے مقدمہ لڑیں۔ یہ بات انہوں نے  جمعہ کو سندھ اسمبلی کے اسپیکر اسمبلی سید اویس قادر شاہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں صوبے میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے تحریک التویٰ پر بحث کے دوران کہی۔

اجلاس میں پیپلزپارٹی کی خاتون رکن ہیر سوھوکی جانب سے سندھ میں گیس لوڈشیڈنگ کے معاملے پر پیش کردہ تحریک التوا پر بحث ہوئی۔ خاتون رکن نے کہاکہ سندھ میں اچھی خاصی گیس پیدا ہوتی ہے۔ سندھ 61 فیصد گیس پیدا کرتا ہے ہماری ضرورت 400 ایم ایم سی ہے۔ صبح چھ بجے گیس آتی ہے۔ پھر 9 بجے گیس چلی جاتی ہے گیس نہ ہونے کے باعث بچے بغیر ناشتے کے اسکول جاتے ہیں۔ او جی ڈی سی ایل یہاں کام کرتی ہے پورے صوبے میں گیس سپلائی کرتی ہیں۔ مقامی لوگوں کو نوکری بھی نہیں دی جاتی۔ ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق گیس کیوں نہیں دی جارہی آئین بھی کہتا ہے کہ جہاں سے گیس نکلتی ہے وہاں کی ضرورت پوری کر کہ پھر آگے سپلائی کی جائے۔

جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نےکہا کہ گیس جہاں سے نکلتی ہے وہاں کے لوگوں کا حق ہے۔ سی این جی لانچ کر کہ پمپ بنا دیے گئے۔ بڑی بڑی بسیں سی این جی پر چل رہی ہیں۔لوڈشیڈنگ کو ختم ہونا چاہیے۔ میں اس تحریک کی حمایت کرتا ہوں۔ ایم کیو ایم کے راشد خان نے بھی تحریک التوا کی حمایت کی اور کہاکہ گیس لوڈشیڈنگ سے سندھ کی عوام تنگ آگئے ہیں۔ عوام کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہے۔ پہلے ہم گیس استعمال کریں پھر پاکستان استعمال کرے گیس نہ ہونے کی وجہ انڈسٹریز بند ہورہی ہیں۔ گیس نہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟ بل زیادہ آتا ہے لیکن گیس نہیں ملتی عوام پریشان ہے، لوگوں کے گہروں پر چولہے نہیں چل رہے۔ حیدرآباد میں مشہور چوڑی کی فیکٹری بند ہوگئی ہے۔ پانچ لاکھ لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وزیر اعلی کو وزیر اعظم سے بات کرنی چاہیے سندھ میں انفراسٹرکچر موجود ہے آپ گیس دیں سیلینڈر کے باعث جو اموات ہوں گی اس کا ذمہ دار کون ہے؟

ایم کیوایم کے عامر صدیقی نے کہا کہ گیس لوڈشیڈنگ کے ساتھ اسٹرکچر بنانے کی بھی ڈیمانڈ کی جائے۔ سی سی آئی کی میٹنگ میں گیس لوڈشیڈنگ کا مقدمہ وزیر اعلیٰ کو لڑنا چاہیے۔ تحریک کی حمایت میں پی پی کی روما مشتاق مٹو ,ماروی فصیح راشدی ایم کیو ایم کے نصیر احمد پی پی کی صائمہ آغا اور دیگر نے بھی تقاریر کیں ان کا کہان تھا کہ گیس کی لوڈشیڈنگ سے ہم سب متاثر ہورہے ہیں – آئین کواضح طور پر کہتا ہے کہ معدنیات جس صوبے سے نکلیں گی تو پہلے اسے ملیں گی انہوں نے کہا کہ گیس لوڈشیڈنگ کے خلاف ہم آواز اٹھاتے ہیں اور کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ہمیں پتھروں کے زمانے میں لے جایا جا رہا ہے۔ بعد ازاں ایوان نے تحریک التویٰ متفقہ طور پر منظور کرلی۔

قبل ازیں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ایوان میں محکمہ اقلیتی امور سے متعلق وقفہ سوالات تھا، تاہم سوال دریافت کرنے والے ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے جس پر وقفہ سوالات موخر کردیا گیا۔ جس کے بعد مختلف توجہ دلاو نوٹس زیر بحث آئے ۔ ایم کیوایم کے شارق جمال نے کہا کہ ان کے حلقے پی ایس 90میں گلیاں اور کچرے سے بھری ہوئی ہیں سولڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ سمیت کوئی بھی ادارہ کچرا اٹھانے سے قاصر ہے۔ سنیئر وزیر شرجیل میمن نے کہا کہ ہو سکتا ہے ان کی شکایت ٹھیک ہو سندھ حکومت نے اربوں روپے لگا کر سولڈ ویسٹ کو بحال کیا ہے اب کچرا اٹھ بھی رہا ہے اور لینڈ فل سائٹ کو جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر یو سیز کو بارہ لاکھ روپے دے رہے ہیں۔ پیسے اس لئے بڑھائے کہ علاقوں کے مسائل کم ہوں۔ آپ بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتے تو یہ مسائل خود حل کر لیتے۔ صابر قائم خانی نےنشاندہی کی کہ وزیر صاحبان نہیں ہوتے وہ مصروف ہوتے ہیں پارلیمانی سیکٹریز کو یہاں ہونا چاہئے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ یہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں پارلیمانی سیکرٹریز کو پابند کیا جائے گا۔ایم کیو ایم کے راشد خان نے اپنے توجہ دلائو نوٹس۔ میں کہا کہ ایچ ڈی اے اور سولڈ ویسٹ مئنجمنٹ بورڈ کے ملازمین کو ان کے پے اسکیل کے مطابق تنخواہیں فراہم نہیں کی جا رہیں۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ایچ ڈی اے اگر اس طرح کر رہا ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ ناموں کے ساتھ درخواست بناکر ہمیں اور لیبر ڈپارٹمنٹ کو دیدیں-  بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس پیر کے روز دو بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

Spread the love
جواب دیں
Related Posts