کے الیکٹرک پر وفاقی حکومت کے 225 ارب روپے واجبات کا دعویٰ، کےالیکٹرک کا معاملے پر ردعمل

وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ کے الیکٹرک نے 225 ارب روپے سے زائد کے واجبات ادا کرنے ہیں، اس میں 38 ارب 80 کروڑ کی اصل رقم اور 186 ارب 50 کروڑ کے سود کی ادائیگی شامل ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق پاور ڈویژن نے ماہانہ گردشی قرضوں کی رپورٹ جاری کردی ہے جس میں نومبر 2024 کے اختتام تک پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2 ہزار 381 ارب روپے بتایا ہے، نومبر 2023 میں یہ قرضہ 2 ہزار 678 ارب روپے رہا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ (جولائی تا نومبر) کے دوران گردشی قرضوں میں بجلی پیدا کرنے والوں کو واجبات، ایندھن فراہم کرنے والوں کو واجبات اور پاور ہولڈنگ (پرائیویٹ) لمیٹڈ میں رکھے گئے قرضوں میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں کمی واقع ہوئی۔ پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ رواں سال کے پہلے 5 ماہ (جولائی تا نومبر) کے دوران بجلی کے شعبے میں مجموعی گردشی قرض میں 12 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے، جب کہ 2023 کے جولائی تا نومبر کے عرصے میں تقریباً 368 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔

رپورٹ میں بجلی کے شعبے کے قرضوں میں کمی کی وجہ سہ ماہی ٹیرف اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ (کیو ٹی اے اور ایف پی اے) کے ساتھ ساتھ پچھلے سال کی دیگر وصولیوں کے ذریعے زیر التوا پیداواری لاگت میں زیادہ وصولی کو قرار دیا گیا ہے۔ اس میں رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران زیر التوا پیداواری لاگت 31 ارب روپے کی زائد وصولی بھی شامل ہے، جب کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران اس میں 146 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ گزشتہ سال کے دوران دیگر ایڈجسٹمنٹ کے تحت 234 ارب روپے کی اضافی وصولیاں رپورٹ کی گئی تھیں۔ نومبر 2024 تک، نومبر 2023 کے اختتام پر بند کی گئی 133 ارب روپے کی ریکوری کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نومبر 2023 کے اختتام تک کے الیکٹرک کی مجموعی عدم ادائیگیاں 59 ارب روپے تھیں، جب کہ رواں سال نومبر 2024 تک 11 ارب روپے کی ادائیگیاں واجب الادا ہیں۔ پاور ڈویژن نے کے الیکٹرک کے خلاف مجموعی دعویٰ 225 ارب روپے رکھا ہے، جو صرف 38 ارب 80 کروڑ روپے کی اصل رقم پر بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نومبر 2024 میں بجلی پیدا کرنے والوں کے واجبات 11.7 فیصد کم ہو کرایک ہزار 608 ارب روپے رہ گئے، جو نومبر 2023 کے اختتام پر ایک ہزار 822 ارب روپے تھے۔

ترجمان کے الیکٹرک نے واجبات سے متعلق معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹائمز آف کراچی کو بتایا ہے کہ اس وقت یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ جسکے باعث ادارہ فی الحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔

Spread the love
Leave a Reply