پاکستان کے سب سے بڑے کرونا ویکسن سینٹر میں کام کرنے والا عملہ 5 ماہ سے تنخواہوں سے محروم

کراچی کے ایکسپو سینٹر میں قائم پاکستان کے سب سے بڑے کورونا ویکسینیشن سینٹر میں کام کرنے والے عملے کے سینکڑوں افراد کو گزشتہ پانچ ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کا انکشاف ہوا ہے۔ محکمہ صحت سندھ کے حکام نے دی ٹاٸمز اوف کراچی کو  بتایا کہ عملے کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی وجہ سے پانچ مہینے سے تنخواہوں کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی۔
ایکسپو سینٹر کراچی میں دن رات فعال رہنے والا میگا ویکسینیشن سینٹر رواں سال مئی کے مہینے میں قائم کیا گیا تھا، یہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا ویکسینیشن سینٹر تھا جہاں تین شفٹوں میں عملے کے سینکڑوں افراد کام کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ جن افراد کو پانچ مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں ان میں ریسیپشنسٹ، ڈیٹا انٹری آپریٹرز، ویکسینیٹرز اور عوام کی رہنمائی پر مامور سکاؤٹس شامل ہیں۔ اس حوالے سے جب وہاں کے عملے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ مئی کے مہینے سے سٹاف یہاں کام کر رہا ہے لیکن کسی کو بھی تنخواہ نہیں ملی۔ جب عملے سے دستاویزات کی بابت استفسار کیا گیا، تو انکا کہنا تھا کہ کام پر رکھتے وقت کمپنی نے انکی تعلیمی اسناد یا کوئی  دیگردستاویزات تو مانگے تک نہیں، صرف قومی شناختی کارڈ اور دو تصاویر کے ساتھ ایک فارم پُر کروایا تھا
محکمہ صحت سندھ کے ترجمان عاطف ویگہو کے مطابق ایکسپو میں ویکسینیشن سینٹر کا قیام ہنگامی بنیادوں پر کیا گیا تھا جس کے لیئے پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے ہیومن ریسورس کی ہائرنگ کی گئی تھی۔ ابتدائی طور پر ان افراد کی اسناد کی تصدیق اور کوائف کی جانچ پڑتال کے بغیر نوکری پر رکھا گیا تھا، کیونکہ اس وقت صورتحال ایسی تھی۔ ’سرکاری قوانین کے مطابق ظابطے کی کاروائی اور تصدیق مکمل کیئے بغیر کسی بھی ملازم کو تنخواہ جاری نہیں کی جاتی۔
عاطف ویگہو نے بتایا کہ مرحلہ وار عملے کے کوائف کی جانچ پڑتال اور اسناد کی تصدیق کے بعد تنخواہوں کی ادائیگی کے لیئے ضابطے کی کاروائی مکمل کرلی گئی ہے اور جلد ہی تنخواہیں ادا کردی جائیں گی۔ ترجمان محمکہ سندھ کا کہنا تھا کہ اب تک تین مرحلے میں عملے کے ارکان کی رجسٹریشن کی گئی ہے، جس میں سے پہلے مرحلے کے افراد کو تو تنخواہیں ادا بھی کی جا چکی ہیں۔
ذرائع سے حاصل کردہ دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ محکمہ صحت سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ارشاد میمن نے سیکرٹری ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ صوبہ سندھ کو  ایکسپو سینٹر اور ڈاؤ یونیورسٹی میں قائم کورونا ویکسینیشن سینٹر میں تعینات افراد کو چار مہینوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیئے 1 کروڑ 20 لاکھ روپے کے فنڈز کا لیٹر لکھا ہے۔
ایکسپو میں کام کرنے والے ڈیٹا انٹری آپریٹرز کے ٹیم لیڈ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عملے کی جانب سے ایک دو بار اپنے حق کے لیئے آواز اٹھائی بھی گئی تاہم ضلعی انتظامیہ اور ڈی ایچ او کی جانب سے یہ دھمکی ملنے کے بعد کہ ’احتجاج کرنے والوں کو فارغ کردیا جائے گا‘، تمام عملہ خاموش ہوگیا۔
ٹیم لیڈ کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے عملے کو ہر تھوڑے دن بعد یہ آسرا دیا جاتا ہے کہ کام کرتے رہو تمہیں سرکاری نوکری پر رکھ لیا جائے گا۔ ’سب غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو نہایت مجبوری میں یہاں نوکریاں کر رہے۔ بہت سے ایسے ہیں جن کی نوکری کورونا کی نظر ہوگئی، وہ یہاں اس امید سے آئے تھے کہ ان کا گھر چل جائے گا، لیکن تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے بیشتر افراد اب کہیں اور نوکری ڈھونڈ رہے یا ڈبل جاب کر رہے، تاکہ خرچ چلا سکیں۔
ویکسین لگانے والے نرسنگ سٹاف کی بھرتیاں بھی ہنگامی طور پر کی گئی، جن میں بیشتر ایسے ہیں جو نرسنگ سکول کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں جن کے پاس فلحال سند موجود نہیں جو انہیں باضابطہ نرس قرار دے، اس وجہ سے انہیں مہینوں کام کرنے کے باوجود ابھی تک تنخواہیں نہیں ملیں۔ ترجمان محکمہ صحت عاطف ویگہو نے بتایا کہ جیسے جیسے نرسنگ اور ویکسینیشن سٹاف کے کوائف کی جانچ پڑتال مکمل ہو رہی ہے انہیں تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔
اس پورے معاملے میں ایک پرائیویٹ کمپنی سیفائر کا نام آرہا اور کہا جا رہا کہ سیفائر کی جناب سے بھرتیاں کی گئی تھیں لیکن تنخوائیں نہیں دیں۔ ایکسپو میں کام کرنے والے عملے نے بھی یہی بتایا کہ انہیں سیفائر کمپنی نے یہاں نوکری پر رکھا۔ اس معاملے کی تحقیقات میں سامنے آیا کہ سیفائر کمپنی کا محکمہ صحت سندھ کے ساتھ آئی ٹی سروسز کی فراہمی کا معاہدہ ہے اور یہ کمپنی کافی عرصے سے محکمہ صحت کے نظام کی آٹومیشن پر کام کر رہی ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار فیضان شیخ نے بتایا کہ سیفائر کے ساتھ ڈپارٹمنٹ کی آٹومیشن کا کام جاری ہے، اسی دوران کووڈ ویکسینیشن سینٹر میں ہنگامی بنیادوں پر ڈیٹا انٹری آپریٹرز کی ضرورت پیش آئی تھی جن کی ہائرنگ میں سیفائر نے مدد کی تھی، تاہم تمام عملے کو تنخوائیں محکمہ صحت سندھ نے ہی ادا کرنی تھیں۔
فیضان نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے اب تمام تر ضابطے کی کاروائی مکمل ہو چکی ہے اور جلد ہی پچھلے 4 مہینوں سے رکی ہوئی تنخواہ ایک ساتھ عملے کو ادا کر دی جائے گی۔ اس حوالے سے عملے کی فہرستیں اور ان کی حاضری کا ڈیٹا بن کر ڈی ایچ او کے اپروول کے بعد فائنانس ڈپارٹمنٹ کو ارسال کردیا گیا ہے۔
 ان کا مزید کہنا تھا کہ ستمبر کے مہینے سے ایکسپو سینٹر کے عملے کے لیئے باقاعدہ فنڈز کی منظوری ہو چکی ہے، اور اس مہینے سے تنخواہیں باقاعدگی سے ادا کرنے کا عمل شروع ہونے کا قوی امکان ہے۔
محکمہ صحت کے ترجمان عاطف ویگہو کے مطابق پرائیویٹ کمپنی نے جو ہائرنگ کی، اور ہنگامی صورتحال کے دوران جو بھی بھرتیاں کی گئی انہیں تنخواہ کی ادائیگی کوائف کی جانچ پڑتال اور تصدیق کے بغیر ممکن نہیں، اسی وجہ سے اس معاملے میں دیر ہوئی تاہم کام جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تمام دستاویزات اور کوائف کی فراہمی کی ذمہ داری پرائیویٹ کمپنی کی تھی۔
دوسری جانب ایکسپو میں کام کرنے والا عملہ کچھ زیادہ پر امید نہیں، ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے انہیں کوئی واضح صورتحال نہیں بتائی جاتی، بس ہر بار یہ آسرا دیا جاتا ہے کہ سرکاری کانٹریکٹ کرلیا جائے گا۔ عملے کے ایک فرد نے بتایا کہ سینٹر میں خبر پھیلی ہوئی ہے کہ سرکاری کانٹریک پر بھرتی کی صورت میں بھی صرف ایک مہینے کی تنخواہ ملے گی، جبکہ گزشتہ مہینوں کی تنخواہیں ملنا مشکل ہے۔ اس کا کہنا تھا، کہ عملہ مجبور ہے، وہ اس بات پر بھی آمادہ ہے، کہ کچھ تو ملے۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا افضل کی ترجمان مہر خورشید نے  بتایا کہ وزیر صحت کو اس معاملے کا علم ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ویکسینیشن سینٹر کے عملے کو تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ ایک سے دو دن میں حل کردیا جائے گا، تاہم ان کے بیان کے چار دن بھی معاملہ جوں کا توں ہے
Spread the love
جواب دیں
Related Posts