Search
Close this search box.
کھیل

پاکستانی ایتھلیٹ ارشدندیم کا مٹی سے گولڈمیڈل تک کا سفر، بھارت کے نیرج چوپڑا نے ارشدندیم کو کس طرح مدد کی؟

پیرس اولمپکس میں ایتھلیٹ ارشدندیم نے پاکستانیوں کا سالوں کا انتظار ختم کردیا اور پھر کامیابی بھی ایسی ملی کہ نیرج چوپڑا، اینڈرسن پیٹرز، جولیئن ویبر جیسے بڑے بڑے کھلاڑی بھی منہ دیکھتے رہے اور ارشد گولڈ میڈل لے اڑے۔جویلین تھرو کے اس ایونٹ میں ویسے تو 12 کھلاڑی ان ایکشن تھے لیکن پاکستان اور بھارت کی نظریں صرف ارشدندیم اور نیرج چوپڑا پر جڑی تھیں۔

ارشدندیم اور نیرج چوپڑا میدان میں تو سخت حریف ہیں لیکن دونوں اتنے ہی اچھے دوست ہیں اور ارشدندیم کے چیمپیئن بننے میں جہاں انکی محنت ہے وہیں کہیں نہ کہیں نیرج چوپڑا کا بھی ہاتھ ہے اور وہ کسطرح ہے اسے بس تھوڑا آگے چل کر جانیں گے۔پیرس اولمپکس میں جویلین تھرو کے فائنل میں ارشدندیم اور نیرج چوپڑا اپنی پہلی پہلی باری پر فاؤل کرچکے تھے لیکن اسکے بعد ارشدندیم نے ایسی تھرو کردی جس نے ہر دیکھنے والے کو نہ صرف حیران کیا بلکہ تمام حریفوں پر سکتا بھی طاری کردیا۔

ارشدندیم کی یہ تھرو 92.97 میٹر کا فاصلہ طے کرگئی یہ ایسی تھرو تھی جسے اب تک اولمپکس کی 118 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی کوئی نہیں کرسکا تھا۔ارشدندیم کی تھرو کے بعد نیرج چوپڑا نے 89.45 میٹر کی تھرو کی لیکن ارشد کی تھرو کا اس قدر دباؤ تھا کہ نیرج نے اسکے بعد کی تینوں تھرو پر فاؤل کردئے۔ارشدندیم گولڈمیڈل جیت چکے تھے لیکن اپنی آخری تھرو پر ایک بار پھر انہوں نے 91.79 تھرو کی اور دنیا کو ثابت کردیا کہ انکی تھرو کوئی تکا نہیں بلکہ سالوں کی سخت محنت کا نتیجہ تھی۔

ارشدندیم سے پہلی مرتبہ ہارنے پر نیرج چوپڑا نے افسوس ضرور ظاہر کیا لیکن ارشدندیم کی تعریف کرنا نہ بھولے۔ نیرج نے پہلے تو گراؤنڈ میں ہی ارشد کو مبارکباد دی اور میڈیا سے گفتگو میں بھی کہا کہ آج کا دن ارشد کا تھا وہ اس کامیابی کے مستحق تھے۔ آنے والے مقابلوں میں اب ارشد کے ساتھ مزید سخت مقابلے ہوں گے۔

نیرج چوپڑا اس مقابلے میں سلور میڈل جیت سکے۔ ارشدندیم نے نیرج کی کارکردگی کو بھی سراہا اور کہا کہ کرکٹ کی طرح جویلین میں بھی پاک بھارت رائیولری ہے، پاکستان اور بھارت میں لوگ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ نوجوانوں کیلئے اچھا ہے۔

ارشدندیم کا اولمپک گولڈ تک یہ سفر بالکل آسان نہیں تھا، صوبہ پنجاب کی تحصیل میاں چنوں کے ایک گاؤں میں غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ارشدندیم نے پھٹے جوتوں کے ساتھ گھاس کے ایک میدان میں جویلین تھرو کا سفر شروع کیا۔ایک مزور کا بیٹا ہونے کے باوجود ارشدندیم نے سخت محنت سے اپنے خواب کو سچ کردکھایا۔ ارشد نے 2015 سے باقاعدہ طور پر جویلین تھرو میں حصہ لینا شروع کیا اور پھر ہرگزرتے وقت کے ساتھ اس میں مہارت حاصل کرتے گئے۔

اس سفر میں ارشدکے بھارتی حریف نیرج چوپڑا نے بھی انکا ساتھ دیا۔ ارشد اور نیرج کی دوستی کو جاننے کیلئے ہمیں 2016 میں جانا پڑے گا جب ساؤتھ ایشین گیمز میں نیرج نے گولڈ اور ارشد نے برونز میڈل جیتا۔اسکے بعد سے نیرج اور ارشد نے 8 ایسے ایونٹ کھیلے جس میں دونوں نے حصہ لیا اور ہر مرتبہ نیرج چوپڑا ارشدندیم سے آگے رہے لیکن ہر مرتبہ ہی نیرج ارشدندیم کے کھیل کی تعریف کرتے اور انکی حوصلہ افزائی کرتے۔

پاکستانی اور بھارتی حریف ہر جگہ ساتھ ساتھ ہی نظرآتے۔ ارشدندیم کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ نیرج کی کارکردگی سے اپنے لئے حوصلہ لیتے ہیں یہاں تک کہ ارشدندیم ہمیشہ نیرج چوپڑا کو نیرج بھائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ارشدندیم کے گولڈتک کے کٹھن سفر کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ ماہ پہلے تک انکے پاس پریکٹس کیلئے جویلین تک نہیں تھے کیونکہ برسوں سے وہ ایک ہی جویلین سے پریکٹس کرتے آرہے تھے جو اب خراب ہوچکا تھا۔

اور یہی وہ موقع تھا جب نیرج چوپڑا نے سرحد پار ہوتے ہوئے بھی میدان میں حریف لیکن اپنے بہت اچھے دوست کیلئے آواز بلند کی۔ نیرج چوپڑا نے ایک بیان میں کہا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ارشدندیم کے پاس جویلین تک نہیں ہے وہ پاکستان کا بہترین تھرو کرنے والا ایتھلیٹ ہے انکے خیال میں جویلین بنانے والوں کو ارشد کو اسپانسر کرنا چاہئے۔

میڈیا پر خبریں آنے کے بعد بلاآخر ارشدندیم کو حکومت نے 6 نئی جویلین دیں اور ٹریننگ کی سہولیات بھی فراہم کی اور انہی جویلین سے ٹریننگ کرکے آج ارشدندیم نے ملک کا نام روشن کردیا اور پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل اپنے سینے پر سجالیا۔

ارشدندیم کی کامیابی پر جہاں پاکستان بھر میں خوشیاں منائی جارہی ہیں وہیں بھارت سے بھی انہیں مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کے کئی مداحوں نے سوشل میڈیا پر ارشدندیم کیلئے مبارکباد کے پیغامات دئے اور گولڈمیڈل جیتنے پر انکی کارکردگی کو سراہا۔

جواب دیں

اقسام

رابطہ کی معلومات

ہمیں فالو کریں