پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 15 اور 16 اکتوبر 2024 کو شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں انڈیا نے بھی شرکت کی حامی بھری ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کرے گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم ایک یوریشیائی سیاسی ، اقتصادی اور عسکری اتحاد ہے جس کی بنیاد عوامی جمہوریہ چین نے 2001 میں رکھی ۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ابتدا میں اس تنظیم میں چین ، روس، قزاقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے جو پہلے ہی چین کے سرحدی علاقوں میں فوجی اعتماد سازی کے لئے بنائی گئی شنگھائی فائیو نامی تنظیم میں شامل تھے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی توسیع
اس تنظیم میں سب سے پہلے ازبکستان کو شامل کیا گیا جبکہ 2005 میں بھارت، پاکستان ، ایران اور منگولیا کو مبصرکے طور پر شریک کیا گیا ۔ 2017 میں پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی مکمل رکنیت مل گئی۔ اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم کے 10 مستقل اراکین ہیں، جبکہ تنظیم میں مبصر اور ڈاییلاگ پارٹنر کے طور پرترکیہ اور سعودی عرب سمیت 15 ممالک شامل ہیں۔ تنظیم کی بنیاد رکھتے وقت ہی یہ طے کر لیا گیا تھا کہ رکن ممالک انسانی حقوق کی بنیاد پر ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
تنظیم کی اہمیت
سال 2004 سے شنگھائی تعاون تنظیم اقوام متحدہ میں بطور آبزرور موجود ہے اور کئی ذیلی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک پوری دنیا کی معیشت کے 25 فیصد حصے کے مالک، جبکہ دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد افراد ان ملکوں میں رہتے ہیں۔ یہ ممالک تیل اور گیس سمیت لاتعداد معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہیں۔
رکن ممالک کے منصوبے اور تعاون کے شعبے
تنظیم کے رکن چین اور روس نے کئی ملکوں کو تجارتی راستوں کے ذریعے جوڑنے کے حوالے سے بہت بڑے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی سلامتی کے خدشات بشمول دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے کیلئے اہم ہے۔یہ رکن ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں اور انٹیلی جنس شیئرنگ کا انعقاد کرتا ہے۔
تنظیم کے اہم اہداف
تنظیم کا مقصد دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریئے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ ساتھ ہی اسکے اہم اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی، تجارت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ہے۔