روشنیوں کا شہر کراچی گزشتہ کئی برسوں سے شدید بجلی کے بحران سے دو چار ہے اور یہ بحران ملک کی خوشحالی پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ کراچی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تقریباً ہر شہر کی یہی صورتحال ہے۔ اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور لاہوروالے بھی بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کا سامنا کررہے ہیں۔
بجلی کے اس بحران کی وجہ طلب کے مطابق بجلی پیدا نہ ہونا بھی ہے لیکن جو بجلی پیدا ہورہی ہے اس میں سے بڑی تعداد میں بجلی ماحول کو بھی خراب کررہی ہے۔ پاور ڈویژن کے اعدادوشمارکے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیدوار کی صلاحیت 45 ہزار 824 میگاواٹ ہے۔ جس میں سے پبلک سیکٹر کے تحت 18 ہزار 53 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور اس میں سے 21 فیصد ہائیڈرو، 10 فیصد تھرمل اور 8 فیصد نیوکلر سے حاصل ہوتی ہے۔
اسی طرح پرائیوٹ سیکٹر کے تحت 27 ہزار 771 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کی صلاحیت ہے اس میں سے ہائیڈرو آئی پی پیز سے 2 فیصد، تھرمل آئی پی پیز سے 46 فیصد، قابل تجدید توانائی (آر ای) سے 6 فیصد اور حرکی توانائی (کے ای) سے 7 فیصد بجلی حاصل ہوتی ہے۔
توانائی معاشیات کی تحقیق میں ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے اور دوسری طرف ہم ایسی ہی پلانٹس پر سرمایہ کاری کررہے ہیں جس میں کوئلہ، تیل وغیرہ کو جلاکر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ہم نے اپنے ملک کو آگے لے جانے کا واحد ذریعہ کوئلے کے پلانٹس کو سمجھ لیا ہے۔ اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان دنیا کا چھٹا کوئلہ پیدا کرنے والا ملک ہے جسے اب بھی توانائی کے بحران کا سامنا ہے اور یہ کوئلے سے بہت کم بجلی پیدا کرتا ہے۔ اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے صدرراجا کامران نے ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگر ہم ایک پلانٹ کو کوئلے پر منتقل کرتے ہیں تو سالانہ ایک پاور پلانٹ ہمیں کوئلے کی درآمد میں 80 کروڑ ڈالر کی بچت دیتا ہے ساتھ ہی جو بجلی کی پیداواری لاگت ہے تین روپے یونٹ کم از کم کم ہو سکتی ہے دنیا میں کوئلے، ماحولیات اور کاربن اخراج کی وجہ سے اس کے استعمال کو ختم کیا جا رہا ہے اور پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ پاکستان کا دنیا کی مجموعی آلودگی میں حصہ بہت کم لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلوں سے بہت زیادہ متاثر بھی ہے۔
اکنامک سروے آف پاکستان 2023-24 کے مطابق ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 33.50 روپے فی یونٹ، فرنس آئل کی قیمت 63.57 روپے، درآمد شدہ کوئلے کی قیمت 77.66 روپے، نیوکلیئر پلانٹس کی لاگت 20.41 روپے اور پانی کی قیمت 10.39 روپے فی یونٹ ہے۔. یہ واضح ہے کہ پانی اور جوہری کے علاوہ تمام وسائل کی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔.
حکومت توانائی کے اس محاذ پر پیش رفت کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور کنڈا سسٹم، الیکٹرک ڈیوائس کے غیر موثر استعمال پر لائٹس فین اور اے سی جیسے برقی آلات کو کھلا رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ بجلی ضائع ہو رہی ہے۔. اگر گھرانے بجلی کا موثر استعمال نہیں کرتے ہیں تو طلب اور رسد کا تناسب کبھی بھی توازن میں نہیں رہے گا۔
توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کی توجہ اہم ہے لیکن ہم گھریلو سطح پر بجلی کی بچت کرکے صورتحال کو بہتر بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔. اس سلسلے میں خواتین اور توانائی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں ماہرین نے کہا کہ جو خواتین ملک کی آبادی کا 51 فیصد ہیں، اگر وہ گھریلو سطح پر اپنے روزمرہ کے معمولات میں توانائی کی بچت کے طریقے اپناتی ہیں تو توانائی کے بحران کو دور کرنے میں بہت حد تک مدد مل سکتی ھے-
گھریلوسطح پر بجلی کے استعمال کے حوالے سے ڈاکٹر خالد نے کہا کہ ریزیڈنشل کنزیومر کے لیے انرجی ایفیشنٹ اپلانچز متعارف کروائی جا سکتی ہیں اور دوسرا یہ کہ آگاہی کی بڑی کمی ہے کہ آپ کو کس وقت کیا چیز استعمال کرنی ہے اور کس طرح سے اپنے ماہانہ بل کو کمپیئر کرنا ہے سالانہ بیس پر بھی ماہانہ بیس پر بھی آپ کو گھروں کو اس طرح سے ڈیزائن کرنا ہے جس سے آپ انسولیشن اور پر وینٹیلیشن کو پروموٹ کر رہے ہوں تاکہ آپ کا الیکٹرسٹی کنسپشن جو ہے وہ کم ہو سکے
حالیہ برسوں میں بہت زیادہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے، پاکستان نے سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے سولر پینلز کے استعمال میں بڑھتا ہوا رجحان دیکھا ہے، جس میں گھریلو صارفین سے لے کر زراعت کے شعبے میں ٹیوب ویل تک اور وہ صنعتیں جو بجلی پیدا کرنے کے لیے سولر پینل استعمال کرتی ہیں۔ بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق گذشہ برس مارچ تک پاکستان میں شمسی توانائی سے کل پیداوار ایک ہزار میگا واٹ تھی اور رواں برس مارچ تک یہ 1800 میگا واٹ سے زیادہ ہو چکی ہے۔
مردم شماری 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق مردم شماری کے وقت پاکستان میں شمسی گھرانوں کی تعداد 29 لاکھ 62 ہزار 152 تھی۔. جن میں سے 42% سندھ، 26% خیبر پختونخواہ، 21% بلوچستان، 11% پنجاب اور 0.31% اسلام آباد میں تھے۔
ڈاکٹر خالد نے اپنی رائے دیتے ہو کہا کہ حکومت خود سولر کو پروموٹ کرے تاکہ میں پاکستان جو بجلی کے استعمال کے رہائشی صارفین زیادہ ہیں اس کو ایک تو کم کیا جا سکے اور سولر سے بجلی کی مانگ میں کمی آئے گی اور اس کو ہم صنعتی ضروریات کو پورا کراسکتے ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ ہم انفرادی ذمہ داری لیں اور طرز زندگی میں ضروری تبدیلیاں کریں اور اپنے آپ کو سبز توانائی سے آگاہ کریں۔. فوری طور پر سبز توانائی میں منتقلی کرنا مشکل ہے اور اس لیے اس وقت تک افراد کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ سرے سے توانائی کے نقصان کو کم کریں۔