پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے ملکی ٹیکس قوانین میں سے نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے ٹیکس قوانین میں سے ’نان فائلر‘کی کیٹیگری ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اب نان فائلرز پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔
نان فائلرز پر کیا پابندیاں لگ سکتی ہیں؟
نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرکے ٹیکس نہ دینے والوں پر15پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے جن میں سے 5 ابتدائی طور پر لگائی جائیں گی ابتدائی پابندیوں میں جائیداد، گاڑیوں، بین الاقوامی سفر ، کرنٹ اکاؤنٹ کھولنے اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری پرپابندیاں شامل ہیں۔
نان فائلرز اور فائلرز کا کیا فرق ہے؟
پاکستان کے ٹیکس قوانین میں فائلرز اور نان فائلرز کی تعریفیں شامل ہیں۔ان دونوں میں فرق کے بارے میں ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے’فائلرز ایسے افراد ہوتے ہیں جنھوں نے اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس جمع کروایا ہو اور اس کے بعد اس ٹیکس کے گوشوارے یعنی ریٹرنز حکومت کے پاس جمع کروائے ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ نان فائلرز ایسے افراد ہوتے ہیں جنھیں ریٹرنز جمع کروانے کی ضرورت تو ہوتی ہے مگر وہ اضافی ٹیکس دے کر ڈاکومینٹڈ اکانومی سے باہر رہتے ہیں اور اپنے ٹیکس گوشوارے حکومت کے پاس جمع نہیں کرواتے۔‘
ذیشان مرچنٹ کے مطابق ’ٹیکس قوانین کے تحت نان فائلرز کاروباری اور ذاتی ٹرانزیکشنز پر لگ بھگ دگنا ٹیکس دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فی الوقت پاکستان کے ٹیکس قوانین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ آپ زیادہ ٹیکس دے کر نان فائلرز رہیں۔ مگر اب حکومت اس کو بدلنے جا رہی ہے
نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرنے سے ملک میں ٹیکس نیٹ پر کیا اثر پڑے گا؟
حکومت کی جانب سے ٹیکس قوانین میں سے نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرنے کے اقدام سے کیا پاکستان میں ٹیکس نیٹ میں مزید افراد آ پائیں گے؟ کیونکہ پاکستان میں اس وقت ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح نو فیصد ہے جو دنیا کے علاوہ خطے کے دوسرے کئی ممالک میں بھی کم ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال کے اختتام تک ایف بی آر کے مطابق فعال ٹیکس پئیرز کی تعداد 53 لاکھ تھی۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے نان فائلرز کی کیٹیگری کو ختم کرنے کے اقدام کو مثبت قرار دیا۔ انھوں نے اُمید ظاہر کی کہ اس سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو گا کیونکہ نان فائلرز کی صورت میں یہ سہولت موجود تھی کہ زیادہ ٹیکس ادا کر کے کوئی بھی شخص ٹیکس نیٹ سے باہر رہ سکتا ہے۔
نان فائلزز کی کیٹگری کے خاتمے سے کیا ملکی محصولات پر کوئی اثر پڑے گا؟
پاکستان میں فائلرز کے مقابلے میں نان فائلرز کو بینک ٹرانزیکشن، گاڑی کی خریداری، سٹاک مارکیٹ اور بینکوں میں سرمایہ کاری پر زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً کسی بینک کے سیونگ اکاونٹ میں سرمایہ کاری پر حاصل ہونے والے منافع پر فائلرز کو پندرہ فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جب کہ نان فائلرز کو دگنا یعنی تیس فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت کی جانب سے نان فائلرز کی کیٹیگری کے خاتمے کے بعد کیا حکومت کو نان فائلرز سے زیادہ ٹیکس سے وصولی سے محرومی کے بعد آمدنی میں نقصان ہو گا؟ اس کے بارے میں شبر زیدی نے بتایا کہ ’اس اقدام سے ریونیو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم ٹیکس قوانین پر عمل درآمد بڑھ جائے گا کیونکہ ٹیکس ادا کرنے کے اہل افراد کے پاس پابندیوں سے بچنے کے لیے گوشوارے جمع کرنا لازمی ہو گا۔‘
ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ جب سخت پابندیاں عائد ہوں گی تو لازمی طور پر لوگ ٹیکس نیٹ میں آئیں گے جو آمدنی میں اضافے کی وجہ بنے گا تاہم اس کے ساتھ ٹیکس قوانین میں آسانی سے ہی زیادہ آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔
نان فائلرز کی کیٹیگری کے خاتمے سے عام آدمی کیسے متاثر ہو گا؟
پاکستان میں ٹیکس اور گوشوارے جمع کرانے والے افراد کی تعداد کم ہے اور ایک بڑا طبقہ اب بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ نان فائلرز کی کیٹیگری کے خاتمے سے ایک عام آدمی کے لیے مشکلات پیدا ہونے کے بارے میں ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ ’مشکلات تو پیدا ہوں گی جب پابندیاں لگیں گی جیسا کہ موبائل سمز بند ہوئیں تو لوگوں نے ٹیکس اور ریٹرنز جمع کرا کر موبائل فون سمز کو کھلوایا۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’کیش نکالنے اور سرمایہ کاری کے لیے بھی عام آدمی کو پریشانی لاحق ہو گی تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ آگاہی پیدا کی جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں کہ جس میں صرف ایسے افراد ہی ٹارگٹ ہوں جو واقعتاً ٹیکس جمع کرانے کے اہل ہوں لیکن ایسا نہ کر رہے ہوں۔‘
ذیشان مرچنٹ نے مزید کہا کہ ’بزرگ شہری اور نوجوان افراد جن کے بینک اکاونٹ ہیں تاہم وہ دوسروں پر اپنے اخراجات کے لیے انحصار کرتے ہیں کو اس طریقے سے محفوظ رکھا جائے کہ وہ ان پابندیوں کو شکار نہ ہوں۔‘