پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد، درختوں کی کمی، غیر موثر فضلے کے نظام، ایندھن سے پیدا ہونے والی بجلی کو اکثر ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ مانتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا جب بھی خیال آتا ہے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کیلئے شمسی توانائی کا استعمال کیا جائے۔ ایندھن سے چلنے والی گاڑی تبدیل کرکے ایفیشنٹ انرجی پر منتقل ہوا جائے لیکن یہ خیال کبھی نہیں آیا ہوگا کہ اپنی خوراک پر بھی غور کیا جائے گا۔ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آپ جو کھانا کھا رہے ہیں وہ بھی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ ہوسکتا ہے۔
یواین آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 24 فیصد گلوبل گرین ہاؤس گیسز کا اخراج زراعت، مویشیوں سے ہوتا ہے جو کہ ٹرانسپورٹیشن سے بھی زیادہ ہے اور صرف مویشی 14 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی وجہ بنتے ہیں جو کہ دنیا بھر کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراج کے برابر ہے۔
انسانوں کی غذا بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ
ماحولیات پر تحقیق کرنے والے یونیورسٹی آف کیلفورنیا کے سابق پروفیسر ڈاکٹر بینجمن ہولٹن کی تحقیق کے مطابق ہر خوراک کا ایک کاربن اخراج ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی خوراک انسان کے پیٹ تک پہنچنے تک جن جن مراحل سے گزرتی ہے اس میں مختلف مراحل پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے۔
کونسا کھانا کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی وجہ بنتا ہے؟
آئیے اپنی کھانے کی عادت پر نظر ڈالتے ہیں اور جانتے ہیں کسطرح ہماری کھانے کی عادت موسمیاتی تبدیلیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ایک چاول کی پلیٹ 14 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ، پنیر کا ٹکرا 74 گرام، ایک سیب 6.4 گرام اور ایک انڈا 24 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔
اسی طرح ایک اوسط سائز کا گوشت کا ٹکرا 330 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کی وجہ بنتا ہے۔ اسکے برعکس اتنا ہی مرغی کا گوشت 52 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ذمہ داری ہے۔ مچھلی سے 40 گرام اور سبزیوں سے 14 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔
لیکن آخر کیا وجہ ہے گائے یا دنبے کا گوشت اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اصل میں جانور کو پالنے کیلئے بہت ساری زمین، کھاد اور خوراک درکار ہوتی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی پیداوار کی وجہ بنتی ہے۔ انکا فضلہ بھی بہت زیادہ میتھین گیس کا اخراج کرتا ہے۔ جانوروں کو پالنا یا انہیں رکھنا نقصان دہ نہیں کیونکہ یہ ایکو سسٹم کا اہم حصہ ہیں لیکن انکا حد سے تجاوز کرنا مسئلہ ہے۔
کھانے کو ماحول دوست کس طرح بنایا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر بینجمن کی تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ خوراک سے پیدا ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرنے کے لئے میڈیٹیرینین غذا بہترین غذا ہے کیونکہ اس میں گائے یا بھیڑ کے گوشت کا استعمال صرف مہینے میں ایک سے دو بار ہوتا ہے، ہفتے میں ایک سے دو بار مچھلی یا مرغی کا استعمال ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ پورے ماہ زیادہ تر ڈشز سبزی، دالوں اور اناج سے بنتی ہیں۔
تحقیق سے اندازہ لگایا گیا کہ اگر سب لوگ میڈیٹیرینین غذا اپنالیں تو 2050 تک گلوبل وارمنگ کے اثرات کو 15 فیصد کم کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا ان لوگوں کے لئے لازمی مشکل ہوگا جو گوشت شوق سے کھاتے ہیں۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ گوشت چھوڑ نہیں سکتے تو اپنا پورشن آدھا کرلیں۔
ماہرین کے مطابق سولر پینل لگانا اور الیکٹرک کار لے لینا واقعی مشکل ہے لیکن اپنی خوراک میں اپنے لئے اور ماحول کے لئے تبدیلی لانا زیادہ مشکل نہیں۔