کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ سال کے کچھ مہینے 31 دن کے کیوں ہوتے ہیں، کچھ 30 دن کے، اور فروری بیچارے میں صرف 28 دن ہی کیوں اور کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جس کی سالگرہ 30 فروری کو ہو، یا 31 ستمبر یا 31 نومبر ہو، اگر ایسا ہے تو آپ یقیناً کسی غلط فہمی میں ہیں .
قدیم رومی کیلنڈر سے گریگورین کیلنڈر تک کا سفر
آج ہم جو کیلنڈر استعمال کرتے ہیں، اسے گریگورین کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل جولین کیلنڈر کی بہتر شکل ہے، جسے رومی شہنشاہ جولیس سیزر نے 46 قبل مسیح میں متعارف کرایا تھا۔ مگر اس سے بھی پہلے، رومی باشندے ایک ایسا کیلنڈر استعمال کرتے تھے ۔ جس میں صرف 10 مہینے ہوتے تھے، اور سال کا آغاز مارچ سے ہوتا تھا۔
اس حساب سے جنوری اور فروری کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ یعنی سال کے تقریباً 60 دن کسی مہینے میں شمار ہی نہیں ہوتے تھے۔ بعد میں، یعنی 700 قبل مسیح میں جنوری اور فروری کا اضافہ ہوا ۔ تاکہ سال کے تمام دنوں کو کسی نہ کسی مہینے میں شامل کیا
جا سکے۔ اس وقت جنوری پہلا مہینہ اور فروری آخری مہینہ تھا۔
فروری کو مختصر کیوں رکھا گیا؟
جب جولیس سیزر نے جولین کیلنڈر بنایا تو اس میں ہر مہینے کو 30 یا 31 دن کا کر دیا، تاکہ ایک سال 365 دنوں پر مشتمل ہو۔ فروری کو اس وقت 29 دن دئیے گئے، اور ہر چوتھے سال اسے 30 دن کا کیا جاتا (جو آج کے لیپ ایئر کی بنیاد ہے)۔
بعد ازاں، ایک اور رومی شہنشاہ آگستس کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ جولائی (جولیس سیزر کے نام پر) 31 دن کا ہو اور اس کا مہینہ اگست صرف 30 دن کا۔ چنانچہ اس نے فروری سے ایک دن کم کر کے اسے 28 دن کا کر دیا، اور اگست کو 31 دنوں والا مہینہ بنا دیا۔
آج کا نظام کیا ہے؟
جب جولیس سیزر نے جولین کیلنڈر بنایا تو اس میں ہر مہینے کو 30 یا 31 دن کا کر دیا۔ تاکہ ایک سال 365 دنوں پر مشتمل ہو۔ فروری کو اس وقت 29 دن دئیے گئے۔ اور ہر چوتھے سال اسے 30 دن کا کیا جاتا (جو آج کے لیپ ایئر کی بنیاد ہے)۔
بعد ازاں، ایک اور رومی شہنشاہ آگستس کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ جولائی جو جولیس سیزر کے نام پرہے اس میں 31 دن کا ہو اور اس کا مہینہ اگست صرف 30 دن کا۔ چنانچہ اس نے فروری سے ایک دن کم کر کے اسے 28 دن کا کر دیا، اور اگست کو 31 دنوں والا مہینہ بنا دیا۔
گریگورین کیلنڈر کے مطابق موجودہ کیلنڈر میں 7 مہینے 31 دن کے ہیں چار مہینے 30 دن کے اور فروری صرف 28 دن کا — جو ہر چوتھے سال 29 دن کا ہو جاتا ہے۔
تو اگلی بار جب آپ کیلنڈر پر نظر ڈالیں تو یاد رکھیں کہ یہ سب کچھ رومی بادشاہوں کی انا، تاریخی سیاست اور چاند و سورج کی گردش کو سمجھنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔