بھارت کے ایک ممتاز ماہرِ آبی وسائل افتخار اے درابونے مودی حکومت کی جانب سے پاکستان کی طرف پانی کے بہاؤ کو روکنے کے منصوبے کواحمقانہ مشق” قرار دے دیا
افتخار اے درابو کے مطابق بھارت کو پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے درکار انفراسٹرکچر تیار کرنے میں مزید 30سے 50سال لگیں گے۔
افتخار اے درابو،سول انجینئر ہیں اور بھارت و چین کے ہائیڈرو سیکٹر میں 15 سال سے زائد تجربہ رکھتے ہیں ، وہ بین الاقوامی کمپنیوں کے سابق مشیر بھی رہ چکے ہیں، نئی دہلی میں قائم موقر تھنک ٹینک "آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن” میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں درابو نے لکھا کہ پانی کے بہاؤ کو روکنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں یا تو پانی کو ذخیرہ کرنا یا دریاؤں کا رخ موڑنا اور دونوں کو انہوں نے عملی طور پر ناممکن قرار دیا۔
نئے ڈیموں کی تعمیر
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس قدر پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بھارت کو تہری ڈیم جتنے 30 ڈیمز درکار ہوں گے جو بھارت کا سب سے اونچا ڈیم ہے۔اتنی بڑی تعداد میں ڈیمز کی تعمیر کے لیے زمین کہاں سے آئے گی؟انہوں نے کہا کہ ایک تہری سائز کے ڈیم کی تعمیر میں تقریباً ایک دہائی لگتی ہے۔
مزید پڑھیں؛پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ،کیا بھارت یکطرفہ طور پر معاہدہ ختم کرسکتا ہے؟
اگر آج سے ہی 30 ڈیمز پر بیک وقت کام شروع بھی کر دیا جائے، تب بھی پہلا پانی ذخیرہ 2030 سے پہلے ممکن نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہر سال مزید 30 بڑے ڈیمز کی ضرورت ہوگی، جو کہ ایک مکمل طور پر ناقابل عمل منصوبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ”ایسا منصوبہ لاکھوں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری، ہزاروں ایکڑ زمین کے حصول اور کئی دہائیوں پر محیط عرصے کا متقاضی ہوگا
اگر آج بھارت انڈس واٹرز معاہدہ ختم بھی کر دے تو پاکستان کو فوری طور پر کوئی آبی نقصان نہیں ہوگا۔ پانی کا بہاؤ بدستور جاری رہے گا جب تک بھارت ان دیو قامت منصوبوں کو مکمل نہیں کر لیتا۔