دریائے سندھ پر مجوزہ نہروں کے خلاف جاری دھرنے کے باعث پاکستان کی مرکزی شاہراہ، نیشنل ہائی وے، مکمل طور پر بند ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اور عوام دونوں کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔
18 اپریل سے جاری دھرنے کے باعث پنجاب اور سندھ کو ملانے والی شاہراہ بند ہے، جس سے نہ صرف ٹریفک جام ہے بلکہ اشیائے خوردونوش اور برآمدی سامان لے جانے والے کنٹینرز بھی متاثر ہوئے ہیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کے مطابق، پنجاب سے آنے والے آلو سے بھرے 250 کنٹینرز گزشتہ پانچ دنوں سے راستے میں پھنسے ہوئے ہیں، جن کا ابتدائی نقصان 15 لاکھ امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
اشیا خوردنوش کی قلت
سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی، وحید احمد کے مطابق، یہ برآمدی آلو مشرق وسطی، مشرقی ایشیائی ممالک، سری لنکا اور مالدیپ بھیجے جانے تھے، لیکن گرمی اور کولنگ سسٹم کی ناکامی کے باعث مکمل طور پر خراب ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "یہ نہ صرف مالی نقصان ہے بلکہ پاکستان کی عالمی تجارتی ساکھ کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔”
دھرنوں کے اثرات صرف برآمدات تک محدود نہیں بلکہ کراچی کی سبزی منڈیوں میں سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ سبزی منڈی کے بیوپاری سعد اللہ خان کے مطابق، پنجاب سے آنے والی سبزیوں جیسا کہ بند گوبی، لوکی اور کھیرا کی قیمتوں میں تین گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔
قربانی کے جانور بھی پھنس گئے
عیدالاضحی قریب ہونے کے باوجود، پنجاب سے کراچی کے لیے قربانی کے جانور لے جانے والے ٹرک بھی سڑکوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ شہر کی بڑی مویشی منڈیوں کے منتظمین کے مطابق، منڈی میں جانور نہ ہونے کے برابر ہیں جس سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ متوقع ہے۔
مویشیوں سے لدے ٹرک سکھر، مورو، رانی پور سمیت مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں، جہاں پانچ دنوں سے چارہ اور پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی۔ بیوپاریوں کے مطابق، جانور بھوک، پیاس اور گرمی سے نڈھال ہو چکے ہیں، جبکہ کئی کے مرنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کا مطالبہ
ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ کے مطابق، سڑکوں کی بندش کے باعث 12,000 کمرشل گاڑیاں، 2,500 آئل ٹینکرز اور ہزاروں ٹرک پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سے نہ صرف خوراک و ایندھن کی فراہمی متاثر ہوئی ہے بلکہ کراچی پورٹ پر 3,000 سے زائد ان ڈکلیئرڈ کنٹینرز بھی جمع ہو چکے ہیں، جس سے روزانہ کے ڈیمریج نقصان کا تخمینہ 20 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کو فوری اجلاس بلا کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے تاکہ ملکی معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔
دوسری جانب بیوپاریوں، امپورٹرز، ایکسپورٹرز اور ٹرانسپورٹرز نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر نہری منصوبوں پر پیدا ہونے والے تنازع کو ختم کرے تاکہ سڑکیں کھل سکیں اور اشیائے خورونوش، برآمدات اور قربانی کے جانوروں کی بروقت ترسیل ممکن ہو سکے۔