پاکستان آٹو انڈسٹری پر برسوں سے قائم جاپانی اورکورین برانڈز کی اجارہ داری ختم ہونے لگی اور مارکیٹ میں چینی برانڈز کا غلبہ چھانے لگا ہے۔
دو برس کے مشکل دور کے بعد پاکستان کی آٹو انڈسٹری ایک بار پھر بحال ہونا شروع ہو گئی ، پاکستانی آٹو انڈسٹری پر نظر رکھنے والی شرمن سیکیورٹیز کے اعداد و شمار کے مطابق بگ تھری یعنی سوزوکی، ٹویوٹا ، ہنڈا ۔۔۔
اور نئی ابھرنے والی کمپنی سازگار ہیول نے رواں سال ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر میں 30 فیصد زیادہ یعنی 12 ہزار اضافی گاڑیاں بیچیں ہیں جو کہ گذشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں 55 فیصد ذیادہ ہے۔
مجموعی سیلز کے اعداد و شمار کے مطابق پاک سوزوکی اور ٹویوٹا انڈس سر فہرست ہیں جس کے بعد ہنڈا کا نمبر آتا ہے تاہم ماہرین کا کہناہے کہ انڈسٹری کی بحالی اور پیداواری رجحان کے اضافے میں
ہیول جولیون کا بہت اہم کردار رہا ہے جو بگ تھری کی مارکیٹ گرفت کو کمزور کر کے تیزی سے اپنی جگہ بنارہی ہے
پاکستان میں اکتوبر کے دوران 2180 بڑی ایس یو وی گاڑیاں فروخت ہوئیں جو ستمبر کےمقابلے میں 30 فیصد اور گذشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں 86 فیصد ذیادہ ہے
پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما)کے اعداد و شمار کے مطابق ایس یو وی مارکیٹ میں فی الحال چینی برانڈ ہیول نے خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ جسکے اکتوبر کے دوران سب سے ذیادہ ایک ہزار سے زیادہ یونٹ، اور
ٹویوٹا کراس کے 906 یونٹ اور کِیا کی سانٹا فے کے 94 یونٹ فروخت ہوئے۔
شرمن سکیورٹیز کے اعداد و شمار کے مطابق ٹویوٹا نے مجموعی طور پر ستمبر کے مقابلے اکتوبر میں سات فیصد زیادہ کاریں بیچی ہیں۔
ہنڈا کی کاروں کی فروخت میں ستمبر کے مقابلے اکتوبر کے دوران 19 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔
ہنڈا سٹی اور ہنڈا سوک کاروں کی فروخت ستمبر کے مقابلے 24 فیصد بڑھی ہے، سوزوکی نے اکتوبر میں ستمبر کے مقابلے 46 فیصد زیادہ کاریں بیچی ہیں جن میں آلٹو سرفہرست ہے۔
بندش کے اعلان کے باوجود بولان کے آخری ماہ میں بھی ایک ہزار سے زیادہ یونٹ فروخت ہوئے۔ آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود خان کا کہنا ہے کہ کاروں کی فروخت میں اضافہ معاشی استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے جڑا ہے۔
ایک بڑی وجہ شرح سود میں کمی بھی ہے جو 22 فیصد سے کم ہو کر اب 15 فیصد ہے۔ مشہود خان کے مطابقسیڈان گاڑیوں کے مقابلے میں ’ایس یو ویز صارفین کی ڈیمانڈ میں ہیں۔
یہ ایلیٹ اور اپر مڈل کلاس طبقہ ہے جس میں گاڑیوں کی سیلز میں بہتری بھی آ رہی ہے۔‘ شرمن سکیورٹیز کے مطابق مہینہ وار فروخت میں اضافے کی وجہ آٹو فنانسنگ کے ریٹ میں کمی ہے جسکے باعث ستمبر 2024 تک آٹو فنانسنگ
کا حجم 227.5 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔
ایلیٹ صارفین کی ڈیمانڈ کے باوجود ماہرین کہنا ہے کہ آٹو انڈسٹری اب تک عام آدمی کو ذہن میں نہیں رکھ پا رہا کہ وہ ٹو وہیلر سے کار پر کیسے منتقل ہوسکتا ہے۔ جو کہ آٹو سیکٹر کی طویل مدتی
اور دیرپا پیداوار کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔‘