پہلگام پر22 اپریل کو حملے میں نہ صرف 26 جانیں گئیں بلکہ اس واقعے نے کئی زندگیوں کو بری طرح سے متاثر کرنا شروع کر دیا۔ ان میں پاکستان سے بھارت جانے والی خواتین بھی شامل ہیں۔
پاک بھارت کشیدگی کے ماحول میں دونوں ممالک نے سخت پالیسیاں اپنائیں۔ بھارتی حکومت نے پاکستانی شہریوں کو فوری وطن واپس بھیجنے کا حکم جاری کیا، جس کا سب سے زیادہ دھچکہ ان خواتین پر پڑا جو گذشتہ کئی سالوں سے بھارت میں رہائش پزیر تھیں اور جو چند مہینوں یا پھردن پہلے ہی کسی نہ کسی سلسلے میں بھارت آئی ہوئی تھی۔
انہیں خواتین میں ایک افشین جہانگیر بھی شامل ہیں جو بھارتی شہریت رکھتی ہیں وہ شادی کر کے پاکستان آئی اور 11 سال سے کراچی میں رہائش پزیر ہیں۔ ٹائمز آف کراچی سے گفتگو کرتے ہوئے افشین نے بتایا "میں شادی کے بعد تیسری بار 16 مارچ کو بارڈر کراس کر کے 17 کو اپنے والدین کے گھر جودھ پور راجستھان پہنچی اور 27 مارچ کو مجھے واپس کراچی آنا تھا”۔
انہوں نے بتایا کہ "پہلگام واقعے کے بعد 23 تاریخ کو گائیڈ لائنز نیوز میں جاری کی گئی کہ 48 گھنٹوں میں جو بھی پاکستانی بھارت میں ہیں انہیں یہ ملک چھوڑنا ہے، میں سب کاغذات لے کر بارڈر پہنچ گئی لیکن میں جب بارڈر پہنچی تو دیکھا پاکستانی پاسپورٹ کو جانے دے رہے ہیں، بلو(انڈین) پاسپورٹ پر تو بات ہی نہیں کر رہے تھےاور مجھے بارڈر کراس کرنے سے منع کردیا۔
ٹائمز آف کراچی کو انہوں نے بتایا "میں سوچ رہی تھی کہ ہم لوگ کیسے جائیں گے، اس وقت میں بہت غصے میں تھی اور وہ غصہ صرف میرا اپنا نہیں تھا وہ 30 بہنیں جو میری ساتھ وہاں بارڈر پہ کھڑی ہوئی رو رہی تھیں ان کا بھی تھا، وہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے میں نے اپنی پاکستانی شہریت کی سلپ بھی دیکھائی اور کہا کہ اگر مجھے جانے نہ دیا گیا تو میں یہی زہر کھا لوں گی، وہاں کافی گرما گرمی ہوگئی آفیسرز بھی باہر آگئے”۔
افشین کا کہنا تھا کہ "جب آفیسرز نے پہلگام واقعے پر میری رائے پوچھی تو میں نے کہا مجھے افسوس ہے اور مجرموں کو آپ پکڑیں سخت سے سخت سزا دیں لیکن اس میں ہمارا اور ہیاں موجود ماوں کا کیا قصور ہے ہمیں جانے دیا جائے”۔
ٹائمز آف کراچی کو بارڈر کے حالات بتاتے ہوئے افشین نے کہا "ہم لوگ پانچ بجے تک اٹارلی بارڈر کے باہر بیٹھے رہے، ہم سب خواتین دعا کررہی تھیں بہت سی تو رو بھی رہے تھیں، میں نے ایسے ایسے لوگ دیکھے جو تین دن پہلے ہی اپنوں سے ملنے ہیاں آئے تھیں، ایک خاتون تو کہہ رہی تھی اپنی ماں کی قبر بھی نہیں دیکھ سکی میں اپنے بھائیوں کو گلے لگا کے مل نہیں سکی، ایک14 سال کا بچہ معظور تھا اس کی ماں پاکستانی تھی بچہ بھارتی تھا بچے کہہ رہاتھا کہ میرا سب کام میری امی کرتی ہیں، اب کون کرے گا”؟
"اسی طرح ایک خاتون 8 ماہ کی حاملہ تھی اور چار سال کا اس کا بچہ اس کے ساتھ تھا وہ مجھے سے کہہ رہی تھی کہ ہم آپ کی ویڈیو دیکھ کر رو رہے تھے لیکن ہمیں کیا پتہ تھا دو دن بعد ہمیں رات کو 12 بجے گھر سے نکلنے کا کہہ دیا جائے گا وہ اسی بات پہ رو رہی تھی کہ بچہ ڈیلیور ہوگا تو میں کیا کروں گی”؟
انہوں نے بتایامیری ویڈیو کافی وائرل ہونے کے بعد 30 تاریخ کو آفیسرز نے بہت اچھے راوئے کے ساتھ مجھے اور وہاں موجود خواتیں کو اٹاری بارڈر کراس کروایا، اور واہگہ بارڈر والوں نے بہت اچھے سے استقبال کیا وہاں میرے شوہر مجھے لینے کے لیے کھڑے تھے۔
انہوں مطالبہ کیا جس طرح میرا ویلکم ہوا اور جس طریقے سے میں آئی ہوں اور اپنے گھر اپنے بچوں کے پاس اپنے ہسبینڈ کے پاس تو اسی طریقے سے جو بھی اپنے فیملی سے دور ہے اور جو ابھی ہو چکی ہیں
افشین کا کہنا تھا یہ مسئلہ آج کا نہیں 1947 سے ہے، اب بھی بہت سی خواتین اپنے بچوں سے دور وہاں پھنسی ہوئی ہیں، میں چاہتی جتنے اچھے سے میرا کیس حل ہوا ایسے ہی باقی سب خواتین کا حل کیا جائے تاکہ وہ اپنوں سے مل سکیں۔

رضوان فراست کو شعبہ صحافت میں 3 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں ٹائمز آف کراچی سے وابستہ ہیں۔ ملکی سیاست اور معاشرتی مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔