ایوان کا فیصلہ
سندھ اسمبلی نے وفاقی حکومت کی جانب سے ارسا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف نثاراحمد کھوڑو کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی،ایوان میں سندھ کے پانی کے مسئلہ پر حکومت اور اپوزیشن دونوں یک زبان ہوگئے، پیپلز پارٹی کے ارکان نے کہاکہ یہ قرارداد سندھ کے پانی کو نہیں بلکہ پاکستان کو بچانے کی ہے،پانی کے موجودہ معاہدے میں اگر ایک کومہ یا فل اسٹاپ بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس معاہدے کو ختم سمجھا جائے گا۔پانی کے مسئلے پر سندھ اپنے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا اپوزیشن نے بھی پانی سمیت سندھ کے تمام ایشوز پر حکومت سندھ کے ساتھ مل کر بھرپور آواز اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ کراچی شہر کو بھی پانی دیا جائے۔
اجلاس
سندھ اسمبلی کا اجلاس پیر (9 ستمبر، 2024ء)کو اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ کی صدارت میں دوپہر سوا دو بجے شروع ہوا، تلاوت قرآن پاک، نعت شریف اور وقفہ دعا کے بعد اجلاس کے معمول کا ایجنڈا جمعہ (13 ستمبر، 2024ء ) تک مئوخر کردیا گیا۔
تحریک التویٰ
پیپلز پارٹی کے سینئر پارلیمنٹرین نثار احمد کھوڑو نے وفاقی حکومت کی جانب سے ارسا ایکٹ میں ترمیم سے متعلق قرارداد ایوان میں پیش کی جس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نے بھرپور طریقے سے اظہار خیال کیا۔ وزیرپارلیمانی امور ضیالالحسن لنجار نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پانی سندھ کی لائف لائن ہے اور اس سے زیادہ کوئی اہم ایشو نہیں ہے۔
نثار احمد کھوڑو
نثاراحمد کھوڑو نے قرارداد پیش کرتے ہوئے ارسا ایکٹ میں امکانی ترمیم کو مسترد کیا اور کہاکہ ارسا ایکٹ میں ترمیم اور پانی کے 1991ع معاھدے پر عمل نہ ہونے کے خلاف قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی ہے اور وفاق سے مطالبہ کیا ہے کے ارسا ایکٹ 1992ع میں کوئی بھی ترمیم نہیں کی جائے اور پانی کے 1991ع معاھدے پر من و عن عمل کیا جائے۔ ارسا ایکٹ میں ترمیم سندھ کی عوام کو کسی صورت قبول نہیں ہے اور ارسا ایکٹ میں ترمیم کا اثر پانی کے 1991ع معاھدے پر پڑے گا۔انہوں نے کہا کے پانی صوبائی سبجیکٹ ہے اور ارسا ایکٹ میں صوبے کی رضامندی کے بنا ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ ارسا چیئرمین کوئی حاضر یا رٹایرڈ بیوروکریٹ آفیسر نہیں بن سکتا۔ ارسا چیئرمین روٹیشن کے بنیاد پر صوبوں سے ارسا میمبرز سے ہوتا ہے۔ سندھ کا مطالبہ ہے کہ ارسا ایکٹ میں کوئی بھی ترمیم نہیں کی جائے اور پانی کے معاھدے پر عمل کیا جائے۔ ارسا کا کام پانی کے 1991ع معاھدے پر عمل کرکے صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے اور وفاقی حکومت ارسا ایکٹ میں ترمیم کی آڑ میں ایسا اقدام کرکے پاکستان کی فیڈریشن کو توڑنے کا کام نہ کرے۔
نثار کھوڑو نے کہا کے ارسا کیجانب سے پانی کی تقسیم پیرا ٹو کے تحت نہیں کی جا رہی اور ارسا پانی کی تقسیم کبھی تھری ٹیئر تو کبھی تاریخی فارمولے پر کر رہا ہے۔اس لئے قرارداد پیش کرکے سندھ کا بیٹا ہونے کا فرض ادا کیا ہے کے سندھ کو اپنے حصے کا پانی دیا جائے اور پانی کی شارٹیجز کی صورت میں پانی کی کٹوتی تمام صوبوں کے حصے سے کی جائے پانی کی کمی کی صورت میں صورت میں صرف سندھ کے حصے سے کٹوتی سندھ کے ساتھ زیادتی ہے۔سندھ اسمبلی سمیت تین صوبائی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کے خلاف قراردادیں منظور کی۔ ڈیم بنانے کے لئے اکثر یہ الزام لگایا گیا کہ کوٹری سے نیچے پانی سمندر میں ضائع کیا جاتا ہے مگر کوٹڑی سے نیچے 10 ملین ایمر فوٹ پانی کا بھاؤ ہونا چاہئے جو کے سندھ کو پانی دیا ہی نہیں گیا جس وجہ سے ٹھٹھہ،بدین سمیت دیگر ساحلی علاقوں کی لاکھوں ایکڑ ایراضی سمندر نذر ہوچکی ہے۔اس لئے ارسا پانی کے 1991ع پر عمل کرکے معاھدے کے تحت پانی کی تقسیم یقینی بنائے اور وفاقی حکومت ارسا ایکٹ میں کسی قسم کی ترمیم نہ کرے۔
جام خان شورو
صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورونے کہا کہ ارسا کا صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ پانی کے معاہدے پر عمل کرے ،ارسا کی تشکیل صوبوں کے حوالے کی گئی ۔ پاکستان کا سب سے بڑا منصوبہ جب بن رہا تھا تو اس وقت پنجاب نے اعتراض کیا تھا کہ اگر سکھر بیراج بنا تو پانی دینے کے لیے نہیں ہوگا ۔ سندھ کے لوگوں نے 1870 میں پانی کی قلت پر احتجاج کیا تھا ۔تھل کینال آج کا پرپوزل نہیں ہے ۔باکھرا ڈیم کا پراجیکٹ سندھ کی آواز پر بند کیا گیا تھا ۔ آج اگر کسی کو اعتراض ہوتا ہے تو ہم سی سی آئی کے پاس جاتے ہیں اس وقت وقت گونر جنرل کے پاس جاتے تھے۔ جام خان شورو نے کہا کہ میں کوئی بھی بات رکارڈ کے بغیر نہیں کروں گا ۔فضل اکبر کمیشن میں لکھا ہے 1945 کا اکارڈ برقرار رکھیں نیا معاہدہ نہیں کریں ،اکارڈ میں فیڈرل ممبر کا کہیں ذکر نہیں تھا ۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ارسا معاہدے میں ایک کومہ یا فل اسٹاپ بھی تبدیل ہوگا اس معاہدے کو ختم سمجھا جائے گا.کراچی کے پانی پربات کی گئی مجھے بڑا دکھ ہورہا ہے کسی کو پتہ ہے کہ کینجھر اور کراچی کا پانی کہاں سے آتا ہے ؟ کوٹری بیرااج میں واٹر اکارڈ سے 2012 سے 61 فیصد پانی کم آیا ہے ۔اکارڈ میں اگر پانی کا نہیں بھی لکھا ہوتا تو ہم کراچی کو پانی دیتے کیونکہ کراچی ہمارا دل ہے ۔ کراچی کا کیس بھی سی سی آئی میں پڑا ہوا ہے ۔کے فور کا معاہدہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا ۔ہم نے ایف ڈبلیو او سے کہا کہ پیسوںکی فکر نہ کریں ہم دیں گے ۔وزیر آبپاشی نے کہا کہ کراچی کے لیے کینجھر جھیل میں 145 دن کے لیے پانی ہے ۔ہم ٹھٹھہ اور سجاول کا پانی کاٹ کر کراچی کو دیتے ہیں ۔کراچی میں ہمارے اور آپکے بچے رہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ارسا ایکٹ میں ایک لفظ بھی تبدیل ہوا تو اسکے منفی اثرات آئیں گے اسایکٹ میں ہم ترمیم نہیں کرنے دیں گے۔
سید سردار شاہ
وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے قرارداد کے حق میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پانی تاریخ میں ہمیشہ متنازعہ موضوع رہا ہے ،دنیا کی تمام تہذیبیں دریاﺅں کے کناروں پر بنی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیاں پانی کا تنازعہ رہا ہے ۔ انڈس بیسن سے 64 ہزار کینال نکلتے ہیں۔ 1991 کا معاہدہ سی سی آئی کی منظوری سے آیا تھا۔پانی وفاقی مضمون نہیں ہے ۔پانی صوبوں کا مضمون ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 1991 کے معاہدے کو بھی مجبوری میں تسلیم کیا تھا۔ آج وفاقی حکومت کو خیال آیا کہ ارسا کا چیئرمین 21 ویں گریڈ کا افسر بنے گا اوروہ مستقل چیئرمین ہوگا۔ یہ ارسا یا معاہدہ وفاق اور چاروں صوبوں کے درمیان معاہدہ ہے ۔پاکستان چار صوبوں کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ نثار کھوڑو کی قرارداد پانی کو نہیں بلکہ پاکستان کو بچانے کی قرارداد ہے ۔ہم فیڈریشن کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں ،ہم پاکستانی کی ترقی کے خلاف نہیں ہے ۔پاکستان کو بچانے کے لیے سندھ کے علاوہ اورکوئی آسرا نہیں ہے ۔ہم چاہتے ہیں آئین پر عمل ہو ۔ایم کیو ایم وفاق میں وزارتیں لیکر بیٹھی ہوئی ہے وہ بھی وہاں آواز اٹھائے۔ہمیںپاکستان کو بچانا ہے۔
ہیر سوہو
پیپلز پارٹی کی ہیر سوہونے کہا کہ پانی سندھ کا اہم مسئلہ ہے ،پانی کی تقسیم کا مسئلہ 1901 سے لیکر اب تک ہم رو رہے ہیں کہ ہمارے پانی چوری ہو رہا ہے ۔ پنجاب ہمارے بڑے بھائی ہے اللہ اسے عقل دے ۔ ہیر سوہونے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس میں پانی کی قلت رہتی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے درمیاں پانی کا تنازعہ ہمیشہ رہا ہے۔ 1991 میں معاہدہ ہوا آج بھی ہم پانی کی قلت پر رو رہے ہیں۔ معاہدے کے تحت پانی کی قلت میں بھی صوبے برابر کے حصے دار ہوں گے۔
ارباب لطف اللہ
پیپلز پارٹی کے ارباب لطف اللہ نے کہا کہ سندھ اسمبلی کے اسی مقدس ہاﺅس نے پاکستان نے قرارداد پاس کی تھی۔سندھ کے بچوں نے اس دھرتی کو پاکستان کی شکل میں محفوظ کیا ۔ہم نے پاکستان کو کیا نہیں دیا ؟ یہ کیاہماری غلطی ہے؟ مجبوراًکہنا پڑ رہا ہے ہمارا قصور کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ تھرپارکر سے بجلی فیصل آباد جارہی ہے لیکن تھر میں آج بھی بجلی نہیں ہے ۔ستر فیصد روینیو سندھ دیتا ہے لیکن سندھ کے لوگ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں ۔ ایم کیو ایم کے نجم مرزا نے کہا کہ 1991 کا معاہدہ ہوا صوبوں کے درمیان ہوا تھا۔صوبہ سندھ ٹیل میں ہے سندھ کے ٹیل میں کراچی شہرہے ۔اس معاہدے میں کچھ صوبے کی ذمے داریاں بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہےکہ صوبے نے خودبھی اس معاہدے پر عمل نہیں کیا اورکراچی کے پانی نہیں دیا گیا ،گزشتہ 15 سال میں کراچی کو کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا۔ صوبائی حکومت خود بھی معاہدے پر عمل نہیں کررہی۔
امداد علی پتافی
پیپلز پارٹی کے امداد علی پتافی نے کہا کہ نثار کھوڑو نے کی قرارداد میں سندھ کے بچے بچے کی آواز شامل ہے ۔نثار کھوڑو تھل کینال کے خلاف ایک ایک ضلع اور تحصیل میں گئے تھے،آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان بچایا تھا۔
شبیر قریشی
پی ٹی آئی کے شبیر قریشی نے کہا کہ سندھ کے پانی کے لئے ہم سب بات کریں گے ،سندھ ہم سب کا ہے، سندھ کے نا انصافی کرے گا ہم ان کے خلاف کھڑے ہونگے ۔ 1991ء کے معاہدے کے بعد سے کم پانی مل رہا ہے جس کی واجہ سے سندھ میں ہزاروں ایکڑ زمین پر فصل نہیں ہو پا رہی ۔ کراچی کو 1260 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی کی ضرورت ہے مگر وہ نہیں مل رہا16سال سے پیپلز پارٹی حکومت میں ہے مگر پانی کا مسلہ حال نہیں کیا۔
سیدہ ماروی راشدی
پیپلز پارٹی کی سیدہ ماروی راشدی نے کہا کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی سندھ کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہی ہیں،پاکستان بننے کے بعد بھی چار کمیشن بنے ،مون سون کے سیلاب بھی سندھ برداشت کرتا ہے اورپانی کی کمی کو بھی سندھ برداشت کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ارسا کی میٹنگ میں سندھ کا نمائندہ ہمیشہ بائیکاٹ کر کہ ہی اٹھتا ہے ،نئی ترامیم لانے والے شاید تاریخ مطالعہ نہیں کرتے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے لوگوں نے ایک ڈکٹیٹر کو للکارہ تھا ۔سندھ کے لیے ہماری قربانیاں تا قیامت یاد رکھی جائیںگی اورکالا باغ ڈیم کا منصوبہ دفن کر کہ سندھ کے لوگوں نے اپنی طاقت کا لوہا منوایاہے۔
طحہ احمد
ایم کیو ایم کے طحہ احمد نے کہا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ گھمبیر ہے ،جو پانی ہمارے پاس ہے اس کی چوری کو روکا جائے ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ 53 ہزار بچے ہر سال گندا پانی پینے سے فوت ہوتے ہیں۔ سانگھڑ میں چار بچے گندا پانی پینے سے فوت ہوئے ہیں۔ نلوں میں جو پانی آتا ہے وہ پینے کے قابل نہیں ہے۔
صابر قائم خانی
ایم کیو ایم کے صابر قائم خانی نے کہا کہ جب تک پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ہیں پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ تین بیراجوں کے بعد سندھ میں نئے بیراج کیوں نہیں بنائے جاتے ،گاج ڈیم کا منصوبہ کہاں گیا ؟ سندھ حکومت کینالوں کا نظام بہتر نہیں کر رہی ہے۔ کتنی بڑی نالائقی ہے کہ منچھر جھیل کھارے پانی میں تبدیل ہوگئی ،کینجھر جھیل میں پانی کی گنجائش بڑھائی نہیں گئی ۔انہوں نے حکومت سندھ سے کہا کہ پندرہ سال کا ہم کو حساب دیںکہ آپ نے پانی کے مسئلے کے لئے کیا کیا؟ہم قومی اسمبلی میں سندھ کے حقوق کے لیئے آواز اٹھائیں گے اورکسی کو اپنا حق کھانے نہیں دیں گے ۔
ریحان بندوکڑا
پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ رکن ریحان بندوکڑا نے کہا کہ یہ سندھ کا اہم مسئلہ ہے اس لئے ہم بھی اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں ۔ریحان بندوقڑا کے تقریر کے دوران سابق اسپیکر آغار سراج درمیان میں بول پڑے کہ سندھ اور کراچی الگ نہیں ہیں ،سارا سندھ ایک ہی ہے ، یہ لوگ غلط فہمی دور کرلیں۔
ریاض شاہ شیرازی
پیپلز پارٹی کے ریاض شاہ شیرازی نے کہا کہ سمندر تیزی سے زمینیں کھا رہا ہے ، وہ بھی اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر اسی طرح معاملات چلتے رہے تو پچاس سال کے بعد ٹھٹھہ بھی سمندر ہوگا۔
سعدیہ جاوید
پیپلز پارٹی کی سعدیہ جاویدنے کہا کہ بلاول بھٹو آج بھی کہتے ہیں کہ پانی قومی مسئلہ ہے ۔مراد علی شاہ نے ہمیشہ سندھ کا مقدمہ لڑا ہے۔ ارسا ترامیم شاہی فرمان ہوگی جو ہمیں منظور نہیں ۔ میں شہباز شریف کو کہنا چاہتی ہوں کہ آئین کو عزت دیں ورنہ اس کے نتائج آپ کو بھگتنے ہوں گے۔ بلوچستان میں لوگ سڑکوں پر ہیں ،آپ سندھ کے لوگوں کو کیوں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ بھی سڑکوں پر آئیں ۔عمران خان بھی ارسا اکارڈ میں ترمیم کی کوشش کر چکا ہے ۔سعدیہ جاوید کے تقریر کے دوران پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان نے ایوان میں شور شرابہ کردیا او روہ احتجاجاًایوان سے واک آﺅٹ کرگئے۔
عبدالباسط
ایم کیو ایم کے عبدالباسط نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب لوگ سندھ کے حق کے لیے کھڑے ہیں آپ بھی کراچی کے حق لیے کھڑے ہوں ۔ بارشیں تو رحمت ہوتی ہیں لیکن یہ کراچی والوں کے لئے زحمت بن چکی ہیں ،بارشوں کو اسٹوریج کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوا ۔سندھ کے ساتھ ساتھ کراچی کو بھی اسکا حصہ ملنا چاہیے ۔ایم کیو ایم کے جمال احمدنے کہا کہ وفاق سندھ کو پانی نہیں دیتا ہم آپکے ساتھ ہیں مگرسولہ سال سے حکومت آپکے پاس ہے کراچی کے لیے آپ بھی تو کچھ کریں ۔ کراچی کو جو پانچ سو چالیس ایم جی ڈی پانی مل رہا ہے وہ ناکافی ہے ، شہر میںخراب پانی کی وجہ سے صحت کے مسائل ہورہے ہیں ۔ کراچی میں اگر کوئی جنگ ہوگی تو وہ پانی کی بنیاد پر ہوگی ، پانی کی قلت سے ڈسٹرکٹ سینٹرل بہت زیادہ متاثر ہے ۔کسانوں کے ساتھ ساتھ کراچی کو بھی پانی ملنا چاہیے۔
اسماعیل راہو
پیپلز پارٹی کے اسماعیل راہونے کہا کہ نثار کھوڑو نے جو قرارداد پیش کی وہ اہم ہے، میں حمایت کرتا ہوں ۔ ارسا ایکٹ میںترمیم سے پانی کا معاہدہ ہی ختم ہوجائے گا۔انہوں نے یاددلایا کہ ارسا اکارڈ کو تحفظات کے باوجود سندھ نے مشروط طور پر قبول کیا تھا۔سندھ کے مطالبے کی خلاف وزری کی گئی ہے ۔اس وقت میں ارسا ایکٹ میں ترمیم میں سندھ کے خلاف سازش سمجھتا ہوں۔ معاہدے کے تحت پانی کی کمی کو بھی تمام صوبے شیئر کریں گے لیکن پچاس فیصد شارٹیج بھی سندھ کے حصے میں آتی ہے ۔پانی کی کمی کی وجہ سے لائیو اسٹاک فشریز زرعی سیکٹر پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
محمد فاروق
جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے کہا کہ جماعت اسلامی بھی اس قرارداد کی حمایت کرتی ہیں،صوبے کے حق کے لیئے ہم سب کو لڑنا چاہئے ۔ ارسا ریگولیٹری اتھارٹی ہے ،اس کی ذمے داری ہے کہ ٹیل تک پانی پہنچا ئے۔ ڈیم کی بار بار بات سامنے آتی ہے ڈیم بنتے ہیں تو آپریٹ نہیں ہوتے ۔انہوں نے پیپلز پارٹی سے کہا کہ آپ 54 سال سے حکومت میں ہیں۔ سندھ کے تمام اضلاع میں پانی کی قلت ہے۔
کے نجم مرزا
ایم کیوایم کے نجم مرزا نے کہاکہ بد قسمتی سے 1921 سے شروع ہونے والے مسئلے پر بات چل رہی ہے۔ معاہدہ1991ء کوہوا صوبوں کے درمیان۔ صوبہ سندھ ٹیل میں ہے سندھ کے ٹیل میں کراچی ہے۔اس معاہدے میں کچھ صوبے کی ذمے داریاں بھی ہیں۔افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ صوبے نے بھی اس معاہدے پر عمل نہیں کیا۔کراچی کے پانی نہیں دیا گیا۔گزشتہ 15 سال میں کراچی کو کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا۔کراچی ساٹھ فیصد ریونیو دے رہا ہے۔صوبے کی آدھی ابادی کراچی میں رہتی ہے۔صوبائی حکومت نے بھی معاہدے پر عمل نہیں کیا۔