کراچی، جو نہ صرف پاکستان کی معیشت کا مرکز ہے بلکہ مختلف قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، کئی دہائیوں سے انتظامی اور شہری مسائل کا شکار ہے۔ اس شہر میں ہر نیا مسئلہ اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب میڈیا اس پر روشنی ڈالنا شروع کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی میں پیش آنے والے ٹریفک حادثات خاص طور پر ہیوی وہیکل (ڈمپرز، ٹرالرز وغیرہ) کی وجہ سے ہونے والے حادثات میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے، جس سے ایسا محسوس ہوا جیسے ان حادثات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
حادثات اور عوامی رد عمل
رواں سال متعدد جان لیوا حادثات کے بعد عوامی غصہ شدت اختیار کر گیا۔ مختلف مقامات پر شہریوں نے احتجاجاً ڈمپرز کو آگ لگا دی۔ یہ مناظر اس قدر عام ہو گئے کہ یہ مسئلہ سوشل میڈیا، پریس کانفرنسز، حتیٰ کہ قومی اسمبلی کے فلور تک پہنچ گیا۔
"ٹائمز آف کراچی” نے اس سنگین مسئلے پر عوامی رائے، ڈمپر ایسوسی ایشن اور ڈی جی ٹریفک کا مؤقف لے کر اس مسئلے کو ہر زاویے سے جاننے کی کوشش کی۔
عوام کیا کہتے ہیں؟
شہریوں کی رائے اس مسئلے پر منقسم نظر آئی۔ کچھ نے ڈمپر ڈرائیورز کو حادثات کا ذمہ دار ٹھہرایا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اکثر منشیات کے عادی اور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق حکومتی پابندی کے باوجود ڈمپرز دن کے اوقات میں سڑکوں پر رواں دواں ہوتے ہیں، اور یہ سب ٹریفک پولیس میں موجود رشوت خور عناصر کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔
دوسری طرف، کچھ شہریوں نے ٹریفک پولیس کی ناقص حکمت عملی اور شہر میں سڑکوں کی خستہ حالی کو اصل وجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق ہر گڑھا ایک ممکنہ حادثے کو دعوت دیتا ہے۔
ڈمپر ایسوسی ایشن کا مؤقف
ڈمپر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی لیاقت محسود نے اس تاثر کو رد کیا کہ تمام حادثات کی ذمہ داری ڈمپرز پر ڈالی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق، عوام ہر ہیوی وہیکل کو "ڈمپر” سمجھ کر ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کوئی بھی مالک اپنی قیمتی گاڑی کسی منشیات کے عادی کے حوالے نہیں کرے گا۔ ڈرائیورز کو بھی باقاعدہ طور پر تربیت دی جاتی ہے، جنہیں ابتدائی طور پر کئی سال تک ہیلپر کے طور پر کام کرنا ہوتا ہے۔
حاجی لیاقت محسود کا زور اس بات پر تھا کہ کراچی کی سڑکوں کی حالت بدترین ہے، جس کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار اور چھوٹی گاڑیاں اچانک بریک لگاتی ہیں اور یوں تصادم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ٹریفک پولیس کا مؤقف
ڈی جی ٹریفک، پیر محمد شاہ کے مطابق کراچی میں ٹریفک حادثات میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا، تاہم میڈیا کی توجہ کے باعث یہ مسئلہ اب سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تمام ہیوی وہیکلز کی فٹنس، سیکیورٹی کیمروں، اور حفاظتی تدابیر کی باقاعدہ جانچ کی جا رہی ہے۔ نئے قوانین کے تحت ان وہیکلز کو بغیر حفاظتی انتظامات کے سڑک پر آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ٹریفک مسائل کا حل
اگرچہ مختلف ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات ایک مربوط مسئلہ ہے جس میں ناقص انفراسٹرکچر، غیر مؤثر قانون نافذ کرنے والے ادارے، اور ناقص ٹریفک پلاننگ سب شامل ہیں۔
حکومت اور شہری انتظامیہ کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ قانون سازی اور مؤثر اقدامات کے لیے کسی بڑے سانحے کا انتظار نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر ٹریفک پولیس، محکمہ شہری حکومت، اور ہیوی ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن مل کر ٹھوس اقدامات کریں تو اس شہر کو حادثات کے سائے سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔

رضوان فراست کو شعبہ صحافت میں 3 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں ٹائمز آف کراچی سے وابستہ ہیں۔ ملکی سیاست اور معاشرتی مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔