امریکا میں مقیم ہزاروں افغانوں کو ملک بدری کا سامنا، انسانی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکا میں قانونی طور پر مقیم تقریباً 14 ہزار 600 افغان شہریوں کے لیے "عارضی تحفظ کی حیثیت” (TPS) کی تجدید نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے باعث انہیں آئندہ ماہ ملک بدر کیے جانے کا خدشہ ہے۔
ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی (DHS) نے جمعے کو تصدیق کی کہ افغانستان اب TPS کے لیے درکار قانونی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ DHS کی ترجمان ٹریسیا میک لاگلن کے مطابق وزیر خارجہ کرسٹی نوئم نے امیگریشن حکام اور محکمہ خارجہ سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔
TPS ایک ایسا قانونی درجہ ہے جو جنگ، قدرتی آفات یا غیر معمولی حالات سے متاثرہ ممالک کے شہریوں کو امریکا میں وقتی تحفظ فراہم کرتا ہے، انہیں بے دخلی سے بچاتا ہے اور قانونی طور پر روزگار کا موقع فراہم کرتا ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہزاروں افغان شہری، جنہوں نے امریکی افواج کے لیے بطور مترجم یا ٹھیکیدار خدمات انجام دی تھیں، اپنے امیگریشن کیسز کی کارروائی مکمل ہونے کے انتظار میں TPS کے تحت امریکا میں مقیم ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ ان افغانوں کو کہاں بھیجا جائے گا کیونکہ امریکا، طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور کابل کے لیے کوئی براہ راست پرواز بھی موجود نہیں۔ ایسی صورت میں اکثر پناہ گزینوں کو اُس ملک واپس بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ امریکا آئے تھے، اور بہت سے افغان شہریوں کی اگلی ممکنہ منزل پاکستان ہو سکتی ہے، جو پہلے ہی غیر دستاویزی افغانوں کے خلاف ملک بدری کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔
دوسری جانب، افغانستان میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک (WFP) کے مطابق، امریکی امداد میں کمی کے باعث وہ صرف آدھی ضرورت مند آبادی کو خوراک فراہم کر سکے گا۔ ادارے کی قائم مقام کنٹری ڈائریکٹر متینتا چیموکا نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے اور فوری عالمی مدد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کی ایک تہائی آبادی کو خوراک کی شدید ضرورت ہے جبکہ 31 لاکھ افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔