Close Button
Karachi
Current weather
Humidity-
Wind direction-

سندھ اسمبلی کے پری بجٹ اجلاس میں بھی کنالوں کا معاملہ حاوی رہا، تجزیاتی رپورٹ

سندھ اسمبلی کے پری بجٹ اجلاس میں علاقائی مسائل، ترقیاتی اسکیموں، حکومت اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی،امن و امان، سنجیدہ بحث اور سیاسی نکتہ چینی بھرپور ہوئی مگر دریائے سندھ پر کنالوں کی تعمیر کا معاملہ اور پانی کا مسئلہ سب پر حاوی رہا۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ سے قبل ہونے والی پری بجٹ بحث 17 سے 21 مارچ تک جاری رہی۔ اس دوران حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی، اور اپوزیشن جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی 100 ارکان نے تقریباً 20 گھنٹے تک مختلف مالیاتی امور، حکومتی پالیسیوں اور صوبے اور اپنے حلقوں کو درپیش چیلنجز پر اظہار خیال کیا۔ اگرچہ اجلاس کا بنیادی مقصد بجٹ تجاویز پر تبادلہ  تھا، مگر کئی دیگر امور بھی نمایاں حیثیت اختیار کر گئے، جن میں بیوروکریسی کی کارکردگی، بلدیاتی اداروں کی صورتحال اور خاص طور پر سندھ کے پانی کے وسائل پر کنالوں کی تعمیر جیسے حساس معاملات شامل تھے۔

اپوزیشن نے بجٹ اور حکومتی اقدام پر پر سخت تنقید کے ساتھ ساتھ بہتری کے لیے عملی سفارشات بھی پیش کیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے نجم مرزا نے کتابی شکل میں اپنی تجاویز پیش کیں، اسی طرح قرت العین، فوزیہ حمید، عبدالوسیم، طہ احمد، مظاہر امیر خان اور دیگر ارکان کی تقاریر کو مدلل اور جامع قرار دیا  جاسکتا ہے، جن میں اعداد و شمار کی روشنی میں حکومت کی مالیاتی پالیسیوں اور کارکردگی کا تجزیہ کیا گیا، جماعت اسلامی کے محمد فاروق نے کراچی میں پانی کے بحران کو اجاگر کیا۔ ایم کیوایم کے بیشتر ارکان کی توجہ کا مرکز کراچی ہی رہا۔ ایم کیوایم کے رکن نصیر احمد نے 10 میں 8 منٹ ایواں میں خاموش کھڑے ہوکر  منفرد انداز میں احتجاج بھی کیا۔

قائد حزب اختلاف علی خورشیدی کی تقریر کو خاصی توجہ ملی، جس میں انہوں نے حکومت کے مجوزہ بجٹ میں پائے جانے والے نقائص کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ متبادل حل بھی تجویز کیے۔ ان کی تقریر کا سب سے نمایاں پہلو بیوروکریسی پر شدید تنقید تھا، جسے انہوں نے صوبے کے مسائل کی "اصل جڑ” قرار دیا۔ خورشیدی نے نشاندہی کی کہ بیوروکریسی کی نااہلی اور بدانتظامی کے باعث متعدد ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے سندھ حکومت، میئر کراچی اور بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر بھی سخت سوالات اٹھائے، خاص طور پر شہری سہولیات کی فراہمی اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری میں سست روی کو ہدف تنقید بنایا۔ تاہم انکی تقریر کو صوبائی وزراء کے لئے "ریسکیو پیکیج ” بھی قراردیا جارہا ہے۔

اپوزیشن کی نکتہ چینی کا جواب دینے کے لیے حکومتی وزراء شرجیل انعام میمن، ضیاء الحسن لنجار، سعید غنی، سید سردار شاہ، اور سید ناصر حسین شاہ نے اپنے اپنے محکموں سے متعلق وضاحتیں پیش کیں، تاہم سعید غنی کی تقریر کو خاصی جاندار تھی، کیونکہ انہوں نے اختصار اور جامعیت کے ساتھ اپوزیشن کے اعتراضات کا جواب دیا۔ انہوں نے بجٹ پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کر رہی ہے اور ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کو کم کرنے کے لیے بیوروکریسی کی نگرانی سخت کی جا رہی ہے۔

اجلاس کے دوران پانی کے وسائل اور دریائے سندھ پر کنالوں کی تعمیر سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا موضوع رہا۔ پیپلز پارٹی کے بیشتر ارکان نے اپنی تقاریر میں اس مسئلے پر زور دیا اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی تقریر کا ایک بڑا حصہ اسی مسئلے پر لگایا اور اسکرین پر نقشوں کی مدد سے ایوان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ دریائے سندھ پر کنالوں کی تعمیر کے حوالے سے جو ہنگامہ بپا ہے وہ اصل نہیں ہے، تاہم خدشات کا اظہار بھی کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اجلاس کے اختتام پر تفصیلی خطاب کیا اور اس بحث کو سمیٹتے ہوئے اعلان کیا کہ سندھ کے پانی پر مزید کنال تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کے اس بیان کو اجلاس کے سب سے اہم حصہ قرار دیا جاسکتا ہے، پورے ایوان نے ڈیسک بجاکر اسکی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس حوالے سے کسی ایسے منصوبے کو اجازت نہیں دی جائے گی جو صوبے کے پانی کے ذخائر کو متاثر کر سکتا ہو۔ انہوں نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اپنی حکومت کے عزم پر زور دیا اور شفاف مالیاتی منصوبہ بندی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ اس وقت چولستان کینال پر کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا ہے۔

سال 20218ء سے 2024ء تک سندھ اسمبلی کے اجلاس اکثر تلخی اور ہنگامہ آرائی کا شکار ہوتے رہے ہیں، لیکن اب عمومی طور پر خوشگوار ماحول میں کارروائی ہوئی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت سوال و جواب ضرور ہوئے، لیکن غیر ضروری شور شرابہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے خود بھی اس کا اعتراف کیا کہ اپوزیشن نے بجٹ تجاویز پر سنجیدہ اور مثبت گفتگو کی۔ تاہم، بعض بیشتر ارکان کی تقاریر روایتی نوعیت کی تھیں، جو زیادہ تر پانی اور علاقائی انفرادی مسائل کے گرد گھومتی رہیں اور بجٹ کے دیگر پہلوؤں پر خاطر خواہ روشنی نہیں ڈال سکے، اس ضمن میں پارلیمانی جماعتوں کو اپنے نئے ارکان کی پارلیمانی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ پری بجٹ بحث ایک قانونی ضرورت کے ساتھ ساتھ تعمیری اور اصلاحی عمل بھی ہے، تاہم اصل امتحان اب بجٹ پیش کیے جانے کے بعد شروع ہوگا، جب یہ واضح ہوگا کہ حکومت اپوزیشن کی تجاویز کو کتنی اہمیت دیتی ہے اور بجٹ میں کون سے عملی اقدامات شامل کیے جاتے ہیں، اگرچہ وزیراعلیٰ سندھ نے ایوان میں واضح اعلان کیا ہے کہ مناسب تجاویز پر عمل کیا جائے گا۔

Share this news

Follow Times of Karachi on Google News and explore your favorite content more quickly!
جواب دیں
Related Posts