تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں ہر شعبہ ڈیجیٹلائیز ہوتا جارہا ہے یہ تبدیلی صارفین کی سہولت کا باعث بھی ہے اوربدلتی ہوئی جدید دنیا کے ساتھ قدم سےقدم ملا کر چلنے کے لئے لازمی بھی ہے
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری اور نجی ادارے روایتی طریقوں کو چھوڑ کر نظام کو بتدریج جدید تقاضوں اورصارفین کی امنگوں کے مطابق ڈھالنے میں مسلسل مصروف ہیں۔ تاہم پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ اور مسلم اکثریتی آبادی والاملک ہونے کے باوجود تاحال ایک مکمل اسلامی ڈیجیٹل بینک قائم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔اسکے باوجود کہ ملک کے 77 فیصد سے ذائد بینک صارفین اسلامی بینکنگ یا شریعت کے مطابق مالیاتی لین دین اور دیگرپراڈکٹ اور سہولیات کو روایتی بینکنگ پر ترجیح دیتے ہیں۔
ملائیشیا، انڈونیشیا، اور یو اے ای میں شریعت کے مطابق کامیاب ڈیجیٹل بینکنگ متعارف کرایا جا چکا ہے لیکن صارفین کے بڑے رجحان کے باوجود پاکستان
تاحال اس میدان میں پیجچھے نظر آتا ہے۔ اور اسلامی دنیا میں دیگر کئی شعبوں کی طرح ڈیجیٹل اسلامی بینکنگ کے شعبے میں قیادت کرنے کا ایک بڑا موقع ضائع کر رہا ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل بینکنگ کے نام پر دستیاب سہولیات ذیادہ تر روایتی بینکوں کے موبائل ایپس ہیں جو مکمل ڈیجیٹل خاص طور پر اسلامی بینکنگ کی سہولت فراہم نہیں کر رہی۔
اسٹیٹ بینک نے پانچ ڈیجیٹل بینکنگ لائیسنس جاری کئے تھے جن میں راقمی اسلامی ڈیجیٹل بینک بھی شامل ہے۔ توقع تھی کہ یہ لائسنس ملک میں اسلامی فِن ٹیک انقلاب کی بنیاد رکھیں گے، مگر اب تک کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ جسکی بڑی وجوہات میں کمزور ٹیکنالوجی، پرانے نظام، اور مکمل طور پر آن لائن اکاؤنٹ کھولنے کی سہولت کا شامل نہ ہونا ہے ۔ نتیجتاً، صارفین کو ابھی بھی تصدیق اور دستاویزات کے لیے بینک برانچوں کا چکر لگانا پڑتا ہے، جو ڈیجیٹل بینکنگ کے اصل مقصد کو ناکام بنا دیتا ہے۔
دوسری جانب ایزی پیسہ، جاز کیش اور نیا پے جیسے روایتی ڈیجیٹل بینکنگ پلیٹ فارمز تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ شریعت سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی اسلامی ڈیجیٹل بینکنگ کے لیے سنجیدہ ہے یا یہ صرف باتوں تک محدود ہے؟ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان ایک بڑے
مالیاتی موقع سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، جو نہ صرف معیشت بلکہ عالمی سطح پر اسلامی فِن ٹیک میں قیادت کا خواب بھی چکنا چور کر دے گا۔