مصطفی عامر قتل کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی۔پولیس نے گرفتار ملزم شیرازکوعدالت میں پیش کیا۔عدالت نے ملزم کو 21فروری تک کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔آئندہ سماعت پر کیس کے تفتیشی افسر سے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت نے ملزم شیراز سے استفسار کیا کہ آپ کو پولیس نے مارا تو نہیں؟ ملزم نے عدالت کو بتایا کہ مجھے پولیس نےنہیں مارا۔ عدالت نے استفسار کیا آپ پر اغوا اور قتل کا الزام ہے کیا ہوا تھا؟ ملزم شیراز نے دوران سماعت جج کے روبرو جرم کا اعتراف کرلیا۔
ملزم نے بیان میں کہا کہ مصطفیٰ ڈیفنس میں ارمغان کےگھرآیاتھا، ارمغان کے گھر پر مصطفیٰ سے جھگڑا ہوا ہم نے اس پر تشدد کیا، تشدد کے بعد مصطفیٰ کو مارا اور اس کی گاڑی میں ہی حب لے گئے۔
کیس کا مرکزی ملزم ارمغان عدالتی ریمانڈ میں جیل میں ہے۔اس کےوالد کامران قریشی عدالت پہنچےاورجج صاحب سےملاقات کرنے کی کوشش کی۔وہاں تعینات پولیس اہلکاروں نےاس کواندرجانےسےمنع کیا تواس نے شورشرابہ کیا۔کہاکہ جاکر جج صاحب سے بولیں میں ملنے آیا ہوں۔میرے بیٹے کا کیس چل رہا ہے میں جج سے ملوں گا۔کورٹ پولیس کہاکہ وہ امریکی شہری ہےتم ہوتےکون ہو مجھے روکنےوالے۔۔
کامران قریشی نے پولیس کانسٹیبل رضوان کو دھکے دیئے۔شورشرابہ کی وجہ سے پولیس اوررینجرز کی نفری طلب کرکےانہیں قابو کیاگیا۔ مصطفی کی والدہ نے بیٹے کی قبرکشائی کےلئے انسداددہشت گردی عدالت سےرجوع کیا۔عدالت کہاکہ قبرکشائی کےلئے متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے رجوع کریں ۔متعلقہ مجسٹریٹ ہی قبر کشائی اور دیگر معاملات پر آرڈ کا اختیار رکھتا ہے۔
کراچی میں قتل ہونے والے مصطفیٰ عامر کے کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ڈیفنس میں ملزم ارمغان کے گھر سے ملنے والے خون کے نمونے کا ڈی این اے مصطفیٰ کی والدہ سےمیچ کر گیا، کمرے میں رکھے کارپیٹ سے خون کے نمونے حاصل کیے گئے تھے، ملزم ارمغان کے گھر سے حاصل خون کے نمونے کی ڈی این اے رپورٹ آگئی۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ارمغان کےگھر سے ملنے والے خون کے نمونے کا ڈی این اے مصطفیٰ کی والدہ سےمیچ کر گیا ہے۔ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے ڈی این اےمیچ کرنےکی تصدیق کردی ، ارمغان کے کمرے میں رکھے کارپیٹ سے خون کے نمونے حاصل کیے گئے تھے۔
سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن فیصل ایدھی نے مصطفیٰ قتل کیس سے متعلق کہا ہے کہ عدالتی حکم کے بعد مجسٹریٹ کی موجودگی میں قبر کشائی کی جا سکتی ہے، ورثاء اگر چاہیں تو لاش اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ فیصل ایدھی نے بتایا کہ بلوچستان پولیس کی جانب سے ہم سے 12 جنوری کو رابطہ کیا گیا تھا، پولیس کی جانب سے جھلسی ہوئی لاش ہمارے حوالے کی گئی تھی، لاش مکمل طور پر جلی ہوئی تھی۔