پاکستان میں 8 فروری 2024 کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کو آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ایک سال مکمل ہونے پر آج یوم سیاہ منارہی ہے اور ملک بھرمیں احتجاج کر رہی ہے، حکومت نے وفاقی دارالحکومت سمیت پنجاب اور بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
دورسری جانب وفاقی حکومت عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر یوم تعمیر و ترقی منارہی ہے۔ وفاقی حکومت کے نمائندے کا کہنا ہے 8 فروری 2024 کو ملک میں تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا تھا، اس لیے اس دن کو یوم تعمیر و ترقی کے طور پر منایا جا رہا ہے۔
پس منظر
ملک میں 8 فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کو آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے لیکن فارم 45 اور 47 کی بحث اب بھی جاری ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں کسی بھی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی تھی، پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل نے سب سے زیادہ 82، مسلم لیگ ن نے 75، پیپلز پارٹی نے 54 جبکہ ایم کیو ایم نے 17 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ جس کے بعد مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور بلوچستان کی کچھ پارٹیوں نے مل کر حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔
عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس
قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 29 فروری 2024 کو منعقد ہوا، پہلے اسپیکر، پھر ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کا عمل ہوا اور پھر قومی اسمبلی نے اپنا قائد ایوان یعنی وزیراعظم پاکستان کا انتخاب کیا اور 3 مارچ 2024 کو شہباز شریف پاکستان کے 24ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے۔
مخصوص نشستوں کی تقسیم
عام انتخابات کے بعد مخصوص نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا، سنی اتحاد کونسل یعنی کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ بھی گئی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا، ایک سال گزرنے کے بعد اب تک بھی قومی اسمبلی کی 23 مخصوص نشستیں کسی بھی جماعت کو دینے کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔
پی ٹی آئی کا حکومت تسلیم کرنے سے انکار
پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات کے فوری بعد سے اس حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور کسی بھی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا، وزیراعظم شہباز شریف نے 22 دسمبر کو پی ٹی ائی سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے خود اپنی سربراہی میں کمیٹی کے اجلاس طلب کیے۔ پی ٹی آئی نے مذاکراتی کمیٹی کے طلب کرنے کے باوجود اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش نہ کیے۔
کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 8 فروری کے معاملات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا جس پر حکومتی کمیٹی نے 7 روز کا وقت مانگا، تاہم چند دن گزرنے کے بعد ہی پی ٹی آئی نے مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا اور کہا کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں ہوجاتی ہم مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس طرح مذاکراتی کمیٹی کا بھی اجلاس ہوا اور پی ٹی آئی کی عدم شرکت کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ اب مذاکرات کو بڑھانے کے کوئی مقصد نہیں ہے، البتہ یہ کمیٹی اور میرا آفس اپوزیشن کے لیے ہر وقت دستیاب ہے۔
پی ٹی آئی کے احتجاج
بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں، جن کی رہائی کے لیے پی ٹی ائی نے گزشتہ سال میں مختلف اوقات میں اسلام اباد کا رخ کیا اور احتجاج اور دھرنوں کا اعلان کیا تاہم یہ عمل عمران خان کو رہائی نہ دلا سکا۔ 24 نومبر کو عمران خان کی رہائی کے لیے ایک فائنل کال دی گئی، اور قافلے کی سربراہی خود عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ہمراہ کی۔
قافلہ اسلام آباد داخل ہوا اور 26 نومبر کو پی ٹی آئی کارکنان نے ڈی چوک کا قبضہ بھی حاصل کر لیا، جس کے بعد پولیس اور رینجرز کی جانب سے شیلنگ اور اپریشن کے بعد ڈی چوک کو خالی کرا دیا گیا اور علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی دھرنے کے مقام سے خیبرپختونخوا روانہ ہوگئے۔