پاکستان میں ذیابیطس کے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد مریضوں میں سے 78 فیصد افراد ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ اس بات کا انکشاف بدھ کو سینئر ماہرین ذیابیطس و صحت نے کراچی پریس کلب میں ’ڈسکورنگ ڈائیبیٹس‘ پروجیکٹ کے زیر اہتمام پریس کانفرنس کے دوران بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے تازہ ترین سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کیا۔
ماہرین کے مطابق ملک میں ذیابیطس کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور مریضوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے۔ پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے نو منتخب رکن ڈاکٹر علی اصغر نے کہا کہ اس بیماری کے جسمانی اور ذہنی اثرات شدید ہیں، انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں 53 کروڑ 70 لاکھ افراد ذیابیطس سے متاثر ہیں جن میں سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد پاکستان میں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ غیر صحت مند طرز زندگی، غیر صحت بخش غذائیں، کم ورزش اور موٹاپے جیسے عوامل ذیابیطس کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، خاص طور پر نوجوانوں میں اس بیماری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر علی اصغر کے مطابق انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 72 فیصد افراد ذیابیطس سے پیدا ہونے والے ممکنہ پیچیدگیوں سے خوفزدہ ہیں جبکہ 69 فیصد کو ضروری ادویات اور سپلائیز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 65 فیصد مریضوں کو طبی پیشہ ور افراد سے محدود مدد ملتی ہے اور 62 فیصد لوگ روزمرہ کی ذیابیطس مینجمنٹ کی ضروریات سے دباؤ محسوس کرتے ہیں، اس بوجھ کے باعث کئی افراد تنہائی کا شکار ہیں اور 58 فیصد کو ان کی بیماری کے حوالے سے معاشرتی بدنامی کا سامنا ہے۔
ڈاکٹر علی اصغر کا کہنا تھا کہ ذیابیطس برن آؤٹ کا مسئلہ خاص طور پر تشویشناک ہے جو 88 فیصد مریضوں کو متاثر کرتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایسے مریض جسمانی اور ذہنی طور پر تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں، جس کی وجہ سے 79 فیصد افراد نے اس بیماری کا علاج چھوڑنے یا مؤخر کرنے کا اعتراف کیا ہے، جس سے طویل مدتی علاج کے تسلسل کے حوالے سے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کے لئے ذہنی اور نفسیاتی معاونت فراہم کرنا نہایت ضروری ہے، ڈاکٹر علی اصغر نے کہا کہ ذیابیطس کے مریضوں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت پر بھی توجہ دینی چاہیے اور ایسی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں جو ذیابیطس کے مریضوں کی مکمل دیکھ بھال کو یقینی بنائیں