فاقی کابینہ نے 26 نکات پر مبنی آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے قیام، جوڈیشل کونسل کی تشکیل نو، چیف جسٹس کی تعیناتی کے طریقہ کار اور مدت ملازمت میں تبدیلی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔
ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق سپریم کوٹ میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے۔آئینی بینچ کے لیے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گی۔آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے۔ آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل، عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔
چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات ہونے تک اپنے عہدے پر موجود رہیں گے۔
آئینی ترامیم کے مجوزہ ڈرافٹ میں آ رٹیکل 184میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے مطابق چیف جسٹس سے سومو نوٹس لینے کا اختیار ختم کیا جائے گا جبکہ آرٹیکل 179میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس پیٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکتا ہے۔
آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے کی تجویز دیتے ہوئے مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی۔ چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے اگرچہ 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بن گئے تو تین سال کے بعد عہدے سے ریٹائر ہونا ہوگا۔
چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ خصوصی کمیٹی 12 اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ہو گی 8 ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ سے لئے جائیں گے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے سینیئر ترین تین ججز میں سے ایک جج کا بطور چیف جسٹس تقرر کرے گی جبکہ چیف جسٹس تعیناتی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔
آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کوٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل عمل میں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔ آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔
آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے۔ ترمیم کے بعد آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہو جائیں گے۔ تمام آئینی مقدمات آئینی بینچ سنے گا۔ آرٹیکل 209 میں مجوزہ ترمیم کے تحت عدلیہ استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل 13 ممبران پر مشتمل ہوگی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ، جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے جبکہ 4 سینیئر ترین ججز اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل، اور پاکستان بار کونسل کے سینیئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں 4 اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے جبکہ کمیشن میں دو اراکین قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے لیے جائیں گے۔ دو حکومت اور دو اپوزیشن ارکان کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ حکومت کی طرف سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم تجویز کریں گے۔ اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کریں گے۔
حکومت نے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز دی جس کے تحت جوڈیشل کمیشن صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائی کورٹ اور شریعت کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔
مجوزہ ترمیم کے تحت حکومت کا آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت صدر مملکت، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹریبیونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
آرٹیکل 111 میں تجویز کردہ ترمیم کے تحت ایڈوکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کر سکیں گے۔