بلوچستان میں حکومت اور سکیورٹی اداروں نے ایران سے پاکستان میں تیل کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے نئی حکمت عملی بنا لی ہے اور لمیٹیشن پالیسی کے تحت مرحلہ وار پابندیوں پر عمل شروع ہو گیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں گوادر میں سمندری اور زمینی راستے سے ایرانی تیل کی سمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی جبکہ دیگر سرحدی اضلاع میں ایران سے تیل لانے پر پابندی ہفتے میں ایک دن سے بڑھا کر تین دن کر دی گئی۔
نئی پابندیوں کے خلاف صوبے کے سرحدی علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی حکومتی اقدامات کی مخالفت کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کی صورت میں صوبے کی معیشت اور امن وامان کی صورتحال پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ایرانی تیل کی ترسیل سمیت سرحدی تجارت پر پابندیوں کے خلاف بدھ کو بلوچستان کے ضلع چاغی ، منگل کو پنجگور میں احتجاج کیا گیا۔ چاغی میں سڑک بند کی گئی جبکہ پنجگور میں آل بارڈر اتحاد نے بسم اللہ چوک سے ڈپٹی کمشنر کےد فتر تک احتجاجی ریلی نکالی۔ گوادر کو حق دو تحریک کی جانب سے بھی گوادر میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسی حوالے سے وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کے پاس روزگار کے مواقع نہیں تاہم سمگلنگ روزگار کا مستقبل ذریعہ نہیں ہو سکتا، غیر قانونی کام پر اسمبلی میں بحث نہیں کر سکتے، اس سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے ، حکومت اس معاملے پر سوچ بچار کر رہی ہے، تیس ہزار نوجوانوں کو ہنرمند بنایا جائے گا، حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن آغا عمر احمد زئی نے تیل بند کرنے کی بجائے اس پر ٹیکس لگانے کی تجویز دی۔
واضح رہے کہ ملک کے خفیہ اداروں نے رواں سال اپریل میں اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ایران سے سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر تیل (ڈیزل اور پٹرول) بلوچستان کے راستے پاکستان سمگل ہو رہا ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ضلع کیچ (تربت) کی عبدوئی سرحد سے روزانہ 26 لاکھ لیٹر، گوادر کنٹانی سمندری راستے سے یومیہ 19لاکھ لیٹر، ضلع چاغی کے علاقے راجے سے یومیہ ساڑھے 6 لاکھ لیٹر، واشک کے جودر سرحد سے سوا لاکھ لیٹر جبکہ پنجگور کے جیرک اور چیدگی کے دو سرحدی راستوں سے یومیہ 25 لاکھ لیٹر ایرانی تیل پاکستان پہنچتا ہے، روزانہ 1800 سے 2000 زمباد (ایرانی ساختہ) گاڑیاں سرحد پار سے پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ہر ایک گاڑی میں 3200 سے 3400 لیٹر کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ کشتیوں میں 1600 سے 2000 لیٹر لے جانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سمگل شدہ ایرانی تیل میں سے 95 فیصد ٹوکن یا پرچی کے غیر رسمی نظام کے تحت ملک کے اندر لایا جاتا ہے جسے 2021 میں ایف سی اور مقامی انتظامیہ نے بلوچستان کے ایرانی سرحد کے ساتھ اضلاع میں قائم کیا تھا