ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈوں کا مطالبہ نہیں کیا۔ فوجی اڈے مانگے جانے کے حوالے سے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے اگر فوجی اڈوں کا مطالبہ کیا جاتا تو فوج کا مؤقف بھی سابق وزیر اعظم کی طرح ’ایبسولوٹلی ناٹ‘ ہوتا۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کانفرنس ہوئی جس میں پاک فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں پر انہیں بریفنگ دی گئی۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا سرچشمہ ہے، افواہوں کی بنیاد پر پاک فوج کی کردار کشی کسی طور قبول نہیں، فوج کی تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔
پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے،عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نےکہا کہ 9 اپریل کی رات وزیراعظم ہاؤس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، اس حوالے سے سب باتیں جھوٹ ہیں
بی بی سی نے بہت ہی واحیات اسٹوری شائع کی، اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوسکتا، یہ ایک مکمل من گھڑت اسٹوری تھی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج نے خط کے معاملے پر اپنا موقف قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا، ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں اور خفیہ ایجنسیوں سمیت تمام ادارے بھرپور طریقے سے کام کررہے ہیں، خود دیکھ لیں کہ قومی سلامتی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، ہم پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی قیادت نے ہر دور میں ایٹمی پروگرام کے لیے کردار ادا کیا، ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں، ایٹمی پروگرام کو سیاسی مباحثوں کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ ایٹمی اثاثے کسی سیاسی قیادت سے منسلک نہیں، ایٹمی اثاثوں کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف نہ تو مدت میں توسیع طلب کررہے ہیں اور قبول کریں گے، آرمی چیف اس سال 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہوجائیں گے۔
شہباز شریف کی بطور وزیراعظم تقریب حلف برداری میں آرمی چیف کے شریک نہ ہونے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کی اس روز طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے خلاف متعلقہ ادارے کام کر رہے ہیں، فوج کے بارے میں غیر مناسب زبان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے، کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بغیر تصدیق بات کو آگے پہنچادے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بقا جمہوریت میں ہے، عدالتیں فوج کے ماتحت نہیں وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں، پارلیمنٹ،سپریم کورٹ اور مسلح افواج جمہوریت کے محافظ ہیں، ملک میں اب کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔
سیاسی جماعتوں کو این آر او دینے کے سوال پر بابر افتخار نے کہا کہ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی؟ وہ اپنا کام کررہی ہے۔
دھمکی آمیز مراسلے پر انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ وزارت داخلہ دیکھتی ہے، احتجاجی مراسلے صرف سازش پر نہیں اور بھی کئی معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں، یہ سفارتی طریقہ کار ہے۔
سابق وزیراعظم کے دورہ روس سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دورہ روس پر اسٹیبلشمنٹ آن بورڈ تھی۔