اسلام آباد میں وزیر خارجہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت نے کل لائن آف کنٹرول پر جو بزدلانہ کارروائی کی ہے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں جس میں ہمارے معصوم نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس موقع پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے جاری کیے گئے ڈوزیئر سے متعلق کچھ معلومات فراہم کیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ بدامنی میں اضافہ بھارت کے تمام دہشت گرد برانڈز، قوم پرست اور علیحدگی پسندوں سے براہ راست رابطوں کا نتیجہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ علیحدہ ہونے والے جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے گست 2020 میں ساتھ آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد بھارت مسلسل بلوچستان کے کالعدم علیحدگی پسند گروہوں بی ایل ایف، بی ایل اے اور بی آر اے کے ساتھ ٹی ٹی پی کا ایک کنسورشیم بنانے میں مصروف ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بلوچ علیحدگی پسند گروہ پہلے ہی براس کے بینر تلے متحد ہیں، براس 2018 میں بنائی گئی تھی۔
دوران پریس کانفرنس ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر کرنل راجیش جو افغانستان میں بھارتی سفارتخانے میں ملازم تھے جنہوں نے دری زبان میں خط میں واضح لکھا کہ ان کی ان دہشت گرد گروہوں کے کمانڈرز کے ساتھ 4 ملاقاتیں ہوئی ہیں کہ پاکستان کے میٹروپولیٹن شہروں کراچی، لاہور اور پشاور میں نومبر اور دسمبر 2020 میں دہشت گردی کی کارروائی کی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیز داعش پاکستان بنا کر پاکستان کا داعش کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں، حالیہ دنوں میں 30 بھارتی داعش کے عسکریت پسندوں کو بھارت سے افغانستان اور پاکستان سرحد کے ساتھ مختلف کیمپس میں منتقل کیا گیا ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کے 2 انٹیلیجنس آپریٹو کی جانب سے کیا گیا ہے، ان عسکریت پسندوں کو داعش کمانڈر شیخ عبدالرحیم عرف عبدالرحمٰن مسلم دوست کے حوالے کیا گیا۔
انہوں نے بھارت کی دہشتگردوں کو معاونت کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ناقابل تردید ثبوت سامنے آئے ہیں کہ پاکستانی سرحد کے ساتھ آپریٹ کرنے والے بھارتی سفارتخانے اور قونصل خانے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے دہشت گردوں کی معاونت کے گڑھ بن چکے ہیں، ہمارے پاس بھارتی دہشت گردی کی فنڈنگ کے ثبوت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارتی سفارتکار باقاعدگی سے مختلف دہشتگرد سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، ان میں سے ایک میں افغانستان کے لیے بھارتی سفیر اور جلال آباد میں بھارتی قونصلر نے تحریک طالبان پاکستان اور علیحدگی پسند بلوچ گروہوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے شراکت داروں سے تفصیلی بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را تیسرے ملک میں اپنے فرنٹ مین کو مالی معاونت فراہم کرنے کر رہی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے 2 ٹرانزیکشن کی ہیں، جس میں سے ایک خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کو فروغ دینے کے لیے تھی، یہ دونون ٹرانزیکشن بھارتی بینک سے کی گئی اور 28 ہزار ڈالر پنجاب بینک انڈیا سے منتقل کیے گئے، اس کے علاوہ 55 ہزار 851 ڈالر کی ٹرانزیکشن بھارتی شہری من میت کی جانب سے نئی دہلی میں بھارتی بیک سی کی گئی اور اس رقم کو افغانستان انٹرنیشنل بینک میں وصول کیا گیا۔
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ایک اور موقع پر را نے افغانستان میں بھارتی سفارتخانے کا استعمال کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کمانڈرز سے ملاقاتیں کیں، اس سلسلے میں دری میں موجود خط واضح کرتا ہے کہ بھارت نے ٹی ٹی پی قیادت کو اپنے شراکت داروں کے ذریعے ٹی ٹی پی قیادت کو 8 لاکھ 20 ہزار ڈالر ادا کیے۔
انہوں نے بتایا کہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت نے بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے 700 افراد کی ملیشیا کھڑی کی، 24 اراکین پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس میں 10 را آپریٹو بھی شامل تھے اور 60 ملین (6 کروڑ) ڈالر اس فورس کے لیے مختص کیے گئے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی سفارتخانہ انسانی مدد کے کام اور بلوچستان منصوبوں کی آڑ میں قوم پرستوں کو ایک بھاری رقم ادا کر رہا ہے، ہمارے پاس 2 کروڑ 33 لاکھ 5 ہزار امریکی ڈالر کی 4 ٹرانزیکشن کے ثبوت موجود ہیں تاہم یہاں پیش کردہ ایک ثبوت کے مطابق بلوچستان میں بدامنی کے لیے قومی پرست کو 50 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرفراز مرچنٹ اور طارق میر کے اعترافی بیان میں یہ واضح ہے کہ الطاف حسین گروپ کو 2 بھارتی کمپنیوں (جے وی جی ٹی اور پارس جویلری) کے ذریعے را کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی جاتی تھی اور را سے 32 لاکھ 30 ہزار ڈالر منتقلی کے شواہد موجود ہیں۔
دوران پریس کانفرنس انہوں نے بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کو ہتھیاروں اور سامان کی مدد فراہم کرنے کے بارے میں بتایا گیا کہ دہشتگردوں کی فنڈنگ کے علاوہ بھارت اسلحہ، گولہ بارود اور آئی ای ڈیز کے ذریعے مختلف تنظیموں کی مدد بھی کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں را کے معاونت سے چلنے والے 6 دہشتگردوں کے ایک گروپ کا پتہ لگایا گیا جس کا 29 جون 2020 کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج حملے میں تعلق تھا اور وہ پاکستان میں دہشتگرد سرگرمیاں انجام دینے کے علاوہ مختلف دہشتگرد گروہوں کو خودکش جیکٹس بھی فراہم کرنے میں ملوث ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ 2 را فرنٹ مین (عبدالواحد اور عبدالقادر سمیت 4 دہشت گرد (افغان شہری) بے نقاب ہوئے ہیں، یہ نیٹ ورک علما، پولیس حکام اور معروف شخصیات کے قتل میں بھی ملوث ہے جبکہ را کی جانب سے دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے بھاری رقم ادا کی گئی جس میں (خود کشی کے لیے ایک کروڑ پاکستانی روپے، وی بائڈ کے لیے ایک کروڑ پاکستانی روپے، آئی ای ڈی کے لیے 10 لاکھ اور ٹارگٹ کلنگ کے لیے 10 لاکھ روپے) شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر خودکش جیکٹس، آئی ای ڈی، دھماکا خیز مواد، ہتھیار اور گولہ بارود قبضے میں بھی لیا ہے۔
دوران پریس کانفرنس ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس را کی جانب سے ٹی ٹی پی کمانڈرز کو ہتھیاروں، گولہ بارود آئی ای ڈیز فراہم کرنے کے ثبوت بھی ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ را ایجنٹس خیبرپختونخوا میں قبائلیوں کو اس پر اکسانے میں مصروف پائے گئے کہ وہ تربیت کے لیے فائٹرز کو افغانستان بھیجیں، اس سلسلے میں دری میں موجود خط واضح کرتا ہے کہ را کے سہولت کار نے اپنے دورے کے دوران وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں آئی ای ڈیز اور ہتھیار فراہم کیے۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق بھارت الطاف حسین گروپ کو بھی ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کر رہا ہے، ایک موقع پر الطاف حسین گروپ کو 6 لاکھ 20 ہزار ڈالر مالیت کے ہتھیار فراہم کیے گئے، اس سلسلے میں اجمل پہاڑی کا اعترافی بیان موجود ہے۔
اس موقع پر شاہ محمود نے کہا کہ وہ ریاست جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، وہ اپنی حرکتوں، اپنی کارروائیوں سے ہماری اطلاعات کے مطابق ایک سرکش اور بدمعاش قوم کا روپ اختیار کرنے جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایسی مصدقہ اطلاعات اور شواہد ہیں کہ جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان ریاستی دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، ہندوستان نے پاکستان عدم استحکام کا شکار کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ تشویش میرے لیے نئی نہیں ہے، گاہے بگاہے مختلف سطح اور فورمز پر میں اس کا اظہار اور سفارتی ذرائع کو استعمال کرتا رہا ہوں لیکن وقت آ گیا ہے کہ اب قوم بالخصوص بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ مزید خاموش رہنا پاکستان کے مفاد میں نہ ہوگا اور اس خطے کے امن اور استحکام کے مفاد میں بھی نہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف نمایاں کامیابیاں، ہمارے کامیاب آپریشنز کو ہندوستان ہضم نہیں کر پا رہا اور ان کا منصوبہ اب واضح ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9/11 کے بعد پاکستان ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جس کی ہم نے بہت بھاری قیمت بھی ادا کی، اس کا اعتراف کیا بھی جاتا ہے لیکن جتنا ہونا چاہیے اتنا نہیں ہوتا۔
اس موقع پر انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران بذریعہ پروجیکٹر سلائیڈز کے ذریعے ایک گراف بھی دکھایا جس میں 2001 سے 2020 تک پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے اعدادوشمار بھی دکھائے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران 19ہزار 130 دہشت گرد حملے پاکستانیوں نے برادشت کیے، 83 ہزار سے زائد افراد ہلاک و زخمی ہوئے اور ان میں 32ہزار شہادتیں ہیں جس میں 23ہزار نہتے شہری، بچے اور خواتین ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مالی نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو 126 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے اور جو معاشی مواقع گنوائے اس پر تو میں نظر دوڑا ہی نہیں رہا کیونکہ اس کو گننا آسان نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان دنیا میں امن و استحکام کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا تھا تو بھارت پاکستان کے گرد ایک دہشت گرد نیٹ ورک کا جال مسلسل بن رہا تھا، ہندوستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا تھا اور ناصرف اپنی سرزمین بلکہ گردونواح اور پڑوسی میں بھی جہاں ان کو جگہ ملی، انہوں نے فائدہ اٹھایا اور پاکستان پر حملہ آور ہونے کی کوشش جاری رکھی۔