سندھ اسمبلی نے اپنے اجلاس سے قبل قومی ترانہ پڑھنے، امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے شجر کاری مہم شروع کرنے اور ممتاز تاریخ داں اور محقق گل حسن کلمتی کے نام سے ایک سڑک منسوب کرنے سے متعلق چار قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں۔
منگل (29 اکتوبر)کو پرائیوٹ ممبر ز ڈے کے موقع پر وزیر آبپاشی جام خان شورو سندھ اسمبلی میں محکمہ آبپاشی سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ سندھ کو اس وقت پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل منچھر تباہ ہوگئی ہے ۔سندھ میں پانی کی قلت کے باعث زراعت متاثرہورہی ہے۔ہمارے صوبے میں 70فیصد لوگ زراعت پرگذارہ کرتے ہیں ، ہمیں 5 فیصد بھی اگرپانی کم ملے گاتوسندھ کودوسے تین ارب ڈالرکانقصان ہوگا۔
وقفہ سوال
سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سندھ اسمبلی سید اویس قادر شاہ کی زیر صدارت تقریباً آدھا گھنٹہ تارخیر سے صبح ساڑھے 10 بجے شروع ہوا ۔ وقفہ سوال کے دوران قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے دریافت کیا کہ کیا سندھ میں 2019 سے 2021 تک پانی کی قلت تھی ، اور اس کے نتیجے میںکتنی پیداوار متاثر ہوئی۔ وزیر آبپاشی نے کہا کہ 2019 سے 2021 تک دریائے سندھ میں 20 سے 30 فیصد پانی کی قلت تھی ،پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ میں زرعی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔
ایم کیو یام کے رکن عبداباسط نے پوچھا کہ دنیا کوموسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے سندھ اس کا مقابلہ کیسے کر رہا ہے۔ جام خان شورو نے کہا کہ ہم پانی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں معاہدے کے مطابق پانی نہیں مل رہا ،ہم نہروں کی لائنینگ کر رہے ہیں کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے،اس حوالے سے سندھ میں چھوٹے ڈیمز بنا رہے ہیں تاکہ زمینوں کو آباد کیا جائے۔ عبدالباسط نے یہ بھی پوچھا کہ کسانوں کو بچانے کے لیئے ہم نے کیا کیا ہے۔ جام خان شورو نے کہا کہ محکمہ زراعت کسانوں کے لیئے کام کر رہا ہوں۔
ایم کیو ایم کے صابر قائم خانی نے پوچھا کہ سندھ میں 1962 کے بعد کوئی بیراج نہیں بنایا گیا۔ جام خان شورو نے کہا کہ چاروں صوبوں نے پانی کا معاہدہ کیا ہے اس کے تحت سندھ کی کمانڈ ایریا کی ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ اراضی کو آباد ہونا ہے ،سندھ کو 1991 سے لے کر آج تک پورا پانی نہیں ملا ،ہم مسلسل پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نیا بیراج کس طرح بن سکتا ہے ۔سندھ میں صرف 50 فیصد زمین پر ہم کاشت کاری کر سکتے ہیں۔ دریائے سندھ صدیوں سے ہے ،پھلیلی کینال قدرتی کینال ہے جسے کسی نے بنایا نہیں تھا ،انگریزوں نے بیراج بنانا شروع کئے ،ارسا ہرسال کہتا ہے کہ پانی کی قلت ہے ۔1991 سے 2000 تک معاہدے پر عمل ہوا،بعد میں سندھ کے پانی کو روکا گیا۔ اس ضمن میںمئی 2000 میں ارسا نے خط لکھاپھر 2003 میں ایک نیا فارمولہ لے کر آئے جو معاہدے کے خلاف ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جام خان شورو نے کہا کہ سندھ میں 57 چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں۔ جن سے 6 لاکھ ایکڑ اراضی آباد ہو رہی ہے۔ رکن اسمبلی شارق جمال نے دریافت کیا کہ کیا سپر ہائی وے پر چھوٹے ڈیم بنانے کا منصوبہ ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ کراچی میں اے ڈی پی سے 9 چھوٹے ڈیم بنائے گئے ،کراچی میں کل 30 چھوٹے ڈیم بنائے گئے ہیں۔تھدو ڈیم سپر ہائی وے پر واقع ہے ۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ سندھ میں 164 چھوٹے ڈیم مکمل ہوگئے ہیں۔دراوڑ ڈیم اور گاج ڈیم کو آبپاشی مقاصد کے لیئے استعمال کیا جائے گا،چھوٹے ڈیم تھر کاچھو کوہستان میں پینے کے پانی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہمارے پاس بڑے ڈیموں کے لیئے پانی نہیں ہے ۔یہ بات بھی تسلیم کی کہ ڈاﺅن اسٹریم کوٹری سے سمندر کو جو پانی ملنا تھا وہ نہیں دے پا رہے ۔سندھ کے اندر ڈاﺅن اسٹریم دو عشاریہ آٹھ فیصد پانی ملتا ہے۔ پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ایشیا کی سب سے بڑی جھیل منچھر تباہ ہوگئی ہے ۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ کراچی کو پانی بھی کوٹڑی بیراج سے آتا ہے اوترکراچی کا پانی کینجھر جھیل میں آتا ہے ۔کراچی کے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے سندھ ہے ۔جام خان شورو نے کہا کہ کے بی فیڈر سے کراچی کو زیادہ تر پانی ملتا ہے ،کراچی میں پانی کا متبادل اہتمام بھی ہونا چاہئے کیونکہ کینجھر جھیل ڈیڈ پوزیشن پر آجائے تو پھر کیا ہوگا۔
تحاریک التوا
ایوان میں پیپلز پارٹی کی خاتون رکن ہیر سوہو نے اپنی ایک تحریک التوا پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ حیسکو میں مختلف آسامیاں خالی ہیں۔جس کے نتیجے میں ادارے کی کارکردگی خراب ہورہی ہے۔وزیر تعلیم سردار شاہ نے مشورہ دیا کہ تحریک التوا کومزید موثر بنانے کیے لیے اس کو آئندہ ہفتے اس پر بحث کے لئے رکھاجائے۔ جس پر اسپیکر نے رولنگ دی کہ تحریک پر آئندہ پیر کو بحث کی جائے گی۔ رکن سندھ اسمبلی عامر صدیقی نے بھی اپنی ایک تحریک التوا پیش کی جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ پٹیل پاڑہ میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے دوران شدید گرمی میں ایک شخص تاج محمد فوت ہوا، حکومت کی مخالفت کی وجہ سے تحریک مسترد کردی گئی۔
قراردادیں
سندھ اسمبلی میں منگل کو پرائیوٹ ممبر ڈے تھا اس موقع پر ارکان کی مختلف قراردادیں بھی منظور کرلی گئیں۔ ایم کیو ایم کی خاتون رکن فوزیہ حمید نے اپنی قرارداد میں کہا تھا کہ سندھ اسمبلی کے ہر سیشن میں قومی ترانہ پڑھا جائے۔ صوبائی سردار شاہ نے کہا کہ اسمبلی اور اسکول میں فرق ہونا چاہئے تاہم اسپیکر نے کہا کہ اجلاس شروع ہوتے ہی قومی ترانہ پڑھا جائے۔فوزیہ حمید کی سندھ اسمبلی میں قومی ترانے سے متعلق قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔
جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے اپنی قرارداد میں کہاکہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ سندھ کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ سے رہائی دلوائی جائے۔ صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ جو وزیر پارلیمانی امور کی عدم موجودگی میں حکومت سندھ کی نمائندگی کررہے تھے کہا کہ وفاقی حکومت نے کمیٹی تشکیل دی ہے وفاقی حکومت پہلے ہی اس معاملے کو اٹھا چکی ہے۔ ہم قراداد کی مخالفت نہیں کر رہے۔ محمد فاروق نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو لاپتہ کردیا گیا تھا،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 21 برس امریکی جیل میں گذر چکے ہیں۔ اور اس وقت قوم کی بیٹی اغیار کے قبضے میں ہے۔ قانون کے مطابق عافیہ کو پاکستان کے حوالے کیا جائے ۔اس حوالے سے وفاقی حکومت کے اقدامات کی تعریف کرتا ہوں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن لانے کے لیئے قراداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔
پیپلز پارٹی کی رکن ہیر سوہو نے اپنی ایک قرارداد میں مطالبہ کیا تھاکہ کراچی کے محقق اورمصنف گل حسن کلمتی کے نام سے کوئی روڈ کوئی عمارت منسوب کیا جائے۔ گل حسن کلمتی نے کراچی کی تاریخ تہذیب اور ثقافت پر کئی کتابیں لکھی ہے۔ سردار شاہ نے کہا کہ ہم اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں۔ کلمتی قبیلے نے سندھ کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا اورگل حسن کلمتی نے اہم تاریخی کام کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے گل حسن کلمتی کے گائوں میں تعمیر ہونے والے کالیج کو اس کے نام سے منسوب کرنے کا علان بھی کیا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ کسی روڈ کو ان کے نام سے منسوب کرنے کے حوالے سے محکمہ بلدیات کو لکھا جائے۔ ایوان نے یہ قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کر لی۔
ایم کیو ایم کی رکن اسمبلی بلقیس مختار نے اپنی قرار داد میں اس بات کا مطالبہ کیا کہ سندھ میں سرکاری طور پر شجر کاری مہم شرو ع کی جائے۔ شجر کاری مہم سے ماحولیاتی آلودگی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ سید سردار شاہ نے کہا کہ ہم اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں۔ بلقیس مختار کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی جس کے بعد سندھ اسمبلی کا اجلاس بدھ (30 اکتوبر)دوپہر 2بجے تک ملتوی کردیا گیا۔