پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے، غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور کم اجرت آج کے دور میں مزدوروں کے بڑے مسائل ہیں۔
پاکستان میں آج سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے، بینک اور دیگر مالیاتی ادارے بند ہیں اور ملک میں عالمی یوم مزدور پر آج چھٹی ہے لیکن مزدور آج بھی روزگار کی تلاش میں مشقت کرنے پر مجبور ہے۔
مزدور کون ہے؟
مزدوروں کا عالمی دن دراصل کارخانوں، دکانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور بازاروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا دن ہے۔ مزدور کا عالمی دن سڑکوں، چوراہوں پر کھڑے روزگار کی تلاش کے منتظر محنت کشوں کا دن ہے۔ عالمی یوم مزدور دن بھر رکشہ، ٹیکسی چلاکر محنت کرکے کمانے والوں کا دن ہے۔
آج بھی ان محنت کشوں سے عالمی یوم مزدور کے بارے میں پوچھا جائے تو بیشتر کا جواب یہی ہوتا ہے کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یکم مئی کو یوم مزدور منایا جاتا ہے۔ یوم مزدور صرف کاغذوں پر ہے۔ اس دن بھی مزدور روزگار کی تلاش میں مصروف عمل ہوتا ہے جبکہ سرکاری چھٹی کے باعث مالکان چھٹیوں پر ہوتے ہیں۔
پاکستان میں مزدور کی کم سے کم اجرت کتنی ہے؟
پاکستان میں مزدور کی کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے مقرر ہے لیکن آج بھی کئی فیکٹریوں، کارخانوں، دکانوں وغیرہ پر مزدور کو مقررہ اجرت تو دور انکی محنت کی کمائی تک نہیں دی جاتی۔
عالمی یوم مزدور دراصل مزدوروں کے ساتھ ہونے والی انہی ناانصافیوں اور مزدوروں کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کا دن ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد مزدور طبقہ کےساتھ اظہار یکجہتی ، ان کے مسائل کے خاتمہ اور سہولیات کی فراہمی کے حوالہ سے شعور اجاگر کرنا ہے ۔
پاکستان میں یوم مزدور منانے کا آغاز کب ہوا؟
پاکستان میں قومی سطح پر یوم مزدور منانے کا آغاز 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا اور جب سے اب تک ہر سال یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔
ہر سال عالمی یوم مزدور پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہیں جس میں مزدوروں کے مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس سلسلے میں مختلف مزدور تنظیموں کی جانب سے ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
یکم مئی کو عالمی یوم مزدور کیوں منایا جاتا ہے؟
عالمی یوم مزدور 1890 سے منایا جارہا ہے۔ اس دن کی حقیقت جانے کیلئے اگر تاریخ کے صفحے پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1886 ء میں امریکی شہر شکاگو میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کا مطالبہ کیا گیا۔
یکم مئی 1886 کو مزدوں کی جانب سے ہڑتال کی گئی اور احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ مزدوروں کے مظاہرے پر حملہ ہوا اور 4 مزدور جاں بحق ہوئے تو مزدورں کی احتجاجی تحریک مزید پھیلی۔ پولیس نے مظاہروں کو روکنے کیلئے محنت کشوں پر تشدد کیا۔
رپورٹس کے مطابق انہی مظاہروں کے دوران بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور ہلاک ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔
یہ واقعہ عدالت میں گیا اور اس واقعہ کا مقدمہ 21 جون 1886 کو کریمنل کورٹ میں چلا۔ دفاع میں کسی کو صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ عدالت نے 5 مزدور رہنماؤں کو سزائے موت دی اور دیگر مزدوروں کو بھی سزائیں سنائی گئیں۔
سن 1889میں پیرس میں ’انقلاب فرانس‘ کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقعے پر کینیڈا سے تعلق رکھنے سینیٹر ریمونڈ لیونگ (Raymond Lavigne) نے یہ تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے۔ ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890 ء کو یوم مزدور کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔
یوم مئی عالمی طور پر منانے کے لیے اس تجویز کو با قاعدہ طور پر 1891 میں تسلیم کر لیا گیا اور جب سے ہرسال مزدوروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔