سندھ میں جہاں صحت، تعلیم اور زراعت کے شعبے قانون ساز اسمبلیوں اور افسرشاہی کے ڈھانچے پر حاوی رہنے والے جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کے زیر کنٹرول سماجی، معاشی اور سیاسی نظام کا خمیازہ بھگت رہے ہیں وہیں زراعت کے شعبے سے وابستہ خواتین بھی ناانصافیوں کا شکار ہیں۔ یہ بات ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اکرم علی خاصخیلی نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتائی۔
اکرم علی خاصخیلی نےاس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کسانوں اور دیہی مزدوروں کے حامی قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقوں کی خواتین زندگی کے ہر شعبے میں ظلم اور سماجی، معاشی اور سیاسی ناانصافی کا شکار ہو رہی ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ سندھ بانڈڈ لیبر سسٹم ابالیشن ایکٹ 2015 کو نافذ نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں کسانوں کو ہر سال مقامی عدالتوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ جاگیرداروں کی تحویل سے خاندان کے افراد کی رہائی کو یقینی بناسکے۔
اکرم علی خاصخیلی نے بتایا کہ 2013 سے 2023 کے درمیان زراعت کے شعبے سے مجموعی طور پر 12,116 بندھوا مزدوروں کو آزاد کیا گیا۔ جن میں سے 33 فیصد خواتین تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان خواتین کو قرضوں کی غلامی کا حقیقی بوجھ اٹھانا پڑا، جاگیرداروں اور ان کے خاندانوں کے ہاتھوں ذلت برداشت کرنا پڑی، انہوں نے مزید کہا کہ ان کا معاشی استحصال کیا گیا، جسمانی طور پر استحصال کیا گیا اور انہیں تعلیم، ووٹ ڈالنے اور اپنے شریک حیات کے انتخاب کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔
آزاد ہریانی لیبر یونین کی جوائنٹ سیکرٹری ثمینہ خاصخیلی نے کہا کہ سندھ حکومت نے جہاں کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ماہانہ مقرر کیگئی تھی وہیں زرعی اور خواتین ورکرز 12 گھنٹے کام کرنے کے باوجود ماہانہ 10 ہزار روپے سے بھی کم کما رہی ہیں۔
اسی کے ساتھ انہوں نے حکومت پر اس معاملے کو نظر انداز کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تھرپارکر، سانگھڑ، میرپورخاص، دادو، جیکب آباد اور بدین کے اضلاع میں خواتین انتہائی نامساعد حالات میں زندگی بسر کر رہی ہیں اور انہیں صحت اور تعلیم کی سہولیات تک رسائی بھی نہیں ہے۔
بہت سے شرکاء نے بتایا کہ سندھ ویمن ایگریکلچر ورکرز ایکٹ 2019 کے تحت یقین دہانیوں کے باوجود خواتین کو کاشت کے عمل میں ان کی وسیع مشقت، خاص طور پر مرچوں کی چنائی، کپاس کی چنائی، کھجور کی پروسیسنگ جیسے کاموں کے لیے صرف 5000 روپے ماہانہ ملتے ہیں۔
ثمینہ خاصخیلی نے مزید کہا کہ 2022 کے سیلاب سے ہونے والی تباہی نے خواتین کی حالت زار کو مزید خراب کر دیا ہے، سندھ اور وفاقی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے بہت سے کسان اور مزدور اپنے مویشیوں سمیت اپنے گھروں سے محروم ہو گئے۔
لطیف ہریانی لیبر یونین کی صدر حسنہ چاند نے کہا کہ غربت اور بھوک کا شکار رہنے والی زرعی اور محنت کش خواتین کی معاشی بحالی کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ سندھ کے کھیتی باڑی اور مزدوری کے شعبوں میں خواتین غذائیت کی کمی سے شدید متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے خون کی کمی اور دیگر غذائی اجزاء کی کمی کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پریس کانفرنس کے منتظمین کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ خواتین کو مراکز اور بینکوں میں قطاروں میں کھڑے ہو کر تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کسانوں کے حقوق کے کارکنوں نے کہا کہ سندھ کرایہ داری ایکٹ 1950 کے نفاذ میں بھی بہت کم پیش رفت ہوئی ہے، جس میں کسانوں کے حقوق کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ پریس کانفرنس میں یہ سفارش کی گئی کہ کھیتی باڑی اور مزدوری کرنے والی خواتین کو سماجی تحفظ، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور انشورنس تک رسائی کے ساتھ مستقل مزدوری کا درجہ دیا جائے۔