سندھ حکومت کے الیکٹرک کا لائیسنس منسوخ کردے اور شہریوں کو بجلی کی فراہمی خود شروع کر دے ۔ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی نجی کمپنی کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم کے رہنما علی خورشیدی کی زیر صدارت خصوصی کمیٹی برائے انرجی کے اجلاس میں دو ٹوک انداز میں دہمکی دیتے ہوئے بلاآخر ادارے کے حوالے سے ریاست کے اندر ریاست کے مفروضے کو سچ ثابت کردیا ہے۔
کے الیکٹرک اور سندھ حکومت کے درمیان یہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب سندھ حکومت نے کے الیکٹرک کو ڈیوٹی کی مد میں تقریبا 30 ارب روپے کے واجب العدا رقم کا تقاضہ کیا جس پر کے الیکٹرک نے جارحانہ موقف اختیار کرتے ہوئے رقم کی ادائیگی سے سرے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت پر اس سے ذائد رقم واجب العدا ہے۔ سی ای او کے الیکٹرک نے موقف اختیار کیا ہے کہ ہمارے واٹر بورڈ کی جانب 33 ارب روپے واجب الادا ہیں، جب تک ہماری رقم نہیں ملے گی ڈیوٹی کی رقم ادا نہیں کریں گے۔
دوسرا معاملہ سندھ اسمبلی اجلاس میں صارفین کو بجلی کے اضافی بلوں کی فراہمی ، طویل لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل کے حوالے سے قرار داد کی منظوری اور مسائل کے حل کے لئے قائم کی گئی خصوصی کمیٹی میں سی ای او کے الکٹرک کی عدم شرکت کے بعد شروع ہوا۔ کمیٹی کے اجلاس میں بلائےجانے کے باوجود مونس علوی حاضر نہ ہوئے تو اراکین نے اسمبلی اجلاس میں اسے کمیٹی کا استحقاق مجروح ہونے سے تعبیر کیا۔ اسمبلی اجلاس میں پارلیمانی وزیر ضیا الحسن لنجار نے اراکین کو یقین دہانی کرائی کہ اگر دوسرے اجلاس میں سی ای او کے الکٹرک پیش نہ ہو ئے تو وارنٹ جاری کریں گے۔
اب یہ معاملے کو حل کرنے کی خواہش تھی یا وارنٹ کا خوف سی ای او کے الیکٹرک جمعرات کو ہونے والے خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں نہ صرف پہنچے بلکہ انتہائی جارحانہ انداز اختیار کیا جس پر پہلے تو کمیٹی اراکین خاموش ہو گئے بعد ازاں انہوں نے موصوف کو آڑے ہاتھوں لیا۔
مونس علوی نے کہا کہ بجلی کےٹیرف کا ایک میکینزم ہے۔ نیپرا اسکی اجازت دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہے چھپکے سے دو روپے بڑھا دیں۔ رہی بات لوڈ شیڈنگ کی تو اس کا دارومدار علاقے میں بجلی کی چوری پر ہے۔
ٹیرف طے کرنے سے متعلق بیانیہ درست ہے لیکن کے الیکٹرک بجلی کی چوری روکنے کے لئے موثر اقدامات کرنے اوربل ادا کرنے اور بل ادا نہ کرنے والوں یں تفریق اور اسی بنیاد پر بجلی کی فراہمی کے جدید میکینز پر کام کر نے کے بجائے سارا ملبہ صارفین پرہی ڈال دیتی ہے۔ علاقے میں بجلی چوری ہو یا بعض صارفین کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی، خمیازہ علاقے کے سارے صارفین کو لوڈ شیڈنگ اور بعض اوقات بجلی کی مکمل بندش کی صورت میں بھگتنا ہوتا ہے۔ ایسے میں ایماندار اور باقائدگی سے بلوں کی ادائیگی کرنے والا صارف اپنا سر پیٹنے اور ادارے کو کوسنے کےسوا اور کچھ نہیں کر سکتا۔
سندھ حکومت اور کے الیکٹرک کے درمیان واجبات سمیت دیگر تنازعے نے شہریوں کو بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے ایک نئے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ تنازع فوری طور پر حل نہ ہوا تو بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے نتیجے میں شہر میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ پانی کی شدید قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے اورشہری دوہرے عزاب میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔