Search
Close this search box.
تازہ ترین بلاگز

کراچی میں کچرے کے مسائل اور کچرے کو کارآمد بنانے میں خواتین کا کردار

کراچی کے بہت سے مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے یہاں کا روز 12 سے 13 ہزار ٹن پیدا ہونے والا کچرا ہ جسکو ٹھکانے لگا نے کا نظام موثر کارکردگی کرتا نظر نہیں آتا اور اب اس جن کو بوتل میں قید کرنا انتہائی پیچیدہ عمل بن گیا ہے جسکی بڑی وجہ غیر موثر کلیکشن اور ڈسپوزل ہے۔ انٹرنیشل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن کی رپورٹ کے تحت پاکستان سالانہ 49.6 بلین ٹن کچرہ پیدا کرتا ہے جو کہ 2.4 فیصد کے حساب سے سالانہ بڑھ رہا ہے۔ ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے شہریوں کی جانب سے ہر روز پھینکے جانے والا 13000 ٹن کچرے کا تقریبًا ایک تہائی حصہ شہر کےگندے نالوں اور ڈرینج نظام میں جاتا ہے، تو اگر شہری اس سے باز آجائیں تو اس کچرے میں ضرور کمی واقع ہوسکتی ہے ، اور ایک عام تاثر بھی ہے کہ شہریوں کی جانب سے پھینکے جانے والا کچرا بھی گھرو ں سے ہی نمودار ہوتا ہے جسے عام طور پر گھر کی خواتین ہی انجا م تک پہنچاتی ہیں۔

کراچی میں کچرے کو کارآمد بنانے کیلئے کام کرنے والی اینجل امداد اس بارے میں بتاتی ہیں کہ گھروں میں خواتین ہی کچرے کو دیکھتی ہیں کہ کونسا کچرا دوبارہ استعمال میں آسکتا ہے۔ کچرے کی ری سائیکلنگ کے حوالے سے خواتین اس طرح اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں کہ جب وہ کھانا بنارہی ہوں تو سوکھا اور گیلا کچرا الگ کرلیں اور اسکو آگے ری سائیکلنگ کیلئے بھیجیں۔

کراچی میں یومیہ کتنا کراچی پیدا ہوتا ہے؟

کراچی پاکستان کا آبادی کے لحا ظ سے سب سے بڑا شہر ہے اور سب سے زیادہ کچرا بھی کراچی میں پیدا ہوتا ہے۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی رپورٹ کے مطابق کراچی روزانہ لگ بھگ 12000 ٹن کچرا پیدا کرتا ہے جس میں سے 20 فیصد پلاسٹک ہوتا ہے جو نشاندہی کرتا ہے کہ پلاسٹک کا استعمال بے تحاشہ ہے، اقوام متحدہ کی بھی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 3.3 ملی ٹن پلاسٹک کا کچرہ پیدا ہوتا ہے اور اس پر کارروائی نہیں کی گئ تو یہ 2040 تک 12 ملین سالانہ پر پہنچ جائے گا۔

شاپنگ کے لئے پولی تھین بیگ کا استعمال

اس پلاسٹک کے استعمال پر ٹائمز آف کراچی نے ایک آن لائن سروے کیا جس میں کراچی کی خواتین سے بات کی جس میں سامنے آیا کہ 74 فیصد خواتین گروسری شاپنگ کے لیے پولی تھین یعنی پلاسٹک بیگ کا ہی استعمال کر رہی ہیں، 65 فیصد خواتین پلاسٹک کچرے کو کوڑا دان میں ڈال دیتی ہیں، 52 فیصد خواتین کچرے کو پلاسٹک بیگ میں کرکے پھینکتی ہیں جبکہ 57فیصد خواتین بائیو ڈی گریڈ ایبل اور نان بائیو ڈی گریڈ ایبل فضلے کا فرق جانتی ہیں۔ بائیو ڈی گریڈ ایبل ویسٹ کیا ہے اور اس سے خواتین فائدہ کیسے اٹھا سکتی ہیں اس بارے میں اینجل امداد نے ٹائمز آف کراچی کو انٹرویو میں بتایا کہ گیلا کچرا ہمارے کیلئے بہت مفید ہے کیونکہ گیلا کچرا کھاد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اسکو گھر میں ہی آرام سے بنایا جاسکتا ہے۔ کھاد کو پودوں کے اندا لگاکر سرسبز رکھاجاسکتا ہے اور یہ بہت آسان ہے۔ اس کھاد سے گھر کے اندر سبزیاں بھی اگائی جاسکتی ہیں۔

Angel Imdad – CEO Irverde

کراچی میں کچرے کو ٹھکانے لگانے کیلئے کتنی لینڈفل سائٹس ہیں؟

ملک بھر میں لینڈ فل اور ڈمپ سائٹس کی کمی ہے جس پر حکومت پاکستان کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1998 تک لاہور میں صرف ایک ڈمپ سائٹ موجود تھی جسکو 2016 میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کی تشکیل کے بعد پراپر لینڈ فل سائٹ میں تبدیل کیا گیا ، اسی طرح کراچی میں بھی دو ہی کارگر لینڈ فل سائٹس ایک جام چاکرو اور دوسری گوند پاس موجود ہیں۔

کچرے کو کس طرح کارآمد بنایا جاسکتا ہے؟

عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین گھر کے کچرے اور ویسٹ مینجمنٹ میں سب سے اہم کردا ادا کرتی ہیں اس لیے بہت اہم ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ انہیں کچرے کو کس طرح ٹھکانے لگانا چاہیئے تاکہ وہ ویسٹ مینجمنٹ میں اپنا موثر کردار ادا کر سکیں۔ اس بارے میں اینجل امداد نے بتایا کہ ہم روز مرہ میں چیزیں استعمال کرتے ہیں اس کا جو کچرا بنتاہے اس سے دو طرح کے کچرے باہر نکلتے ہیں ایک کچرا ایسا ہوتا ہے جو سوکھا ہوا ہوتا ہے جس کے اندر پلاسٹک کی بوٹلیں، پلاسٹک کی شوپر، کاغذ ،کاربوٹن، میٹل بہت ساری مختلف چیزیں آتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرح کاکچرا ہوتا ہے جوکے ہمارے کھانے کا کچرا ہوتا ہے جسے ہم گیلا کچرا کہتے ہیں اس کے اندر سبزیوں کے چھیلکے، فروٹ کے چھلکے ،انڈے کے چھلکے، پتی اور جتنی زیادہ کھانے پینے کی چیزیں ہیں اس کا ویسٹ ایک گیلا کچرا کہلاتا ہے اگر آپ اپنے ہی گھروں کے اندر سوکھے کچرے کو الگ ایک شوپر میں جماکرنا شروع کردیں اور گیلے کچرے کو آپ الگ ڈیسپوز کرنے لگ جائیں تو آپ کا سوکھا ہوا کچرا جس کے اندر پلاسٹک، پیپر بہت ساری مختلف چیزیں ہیں وہ آرام سے ری سائیکل ہو پائےگا

غیر موثر ویسٹ مینجمنٹ

غیر موثر ویسٹ مینجمنٹ بہت سارے ماحولیاتی مسائل کی وجہ بنتا ہے، یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کرتا ہے اور ساتھ ساتھی یہ پلاسٹک ویسٹ، میتھین گیس خارج کرتا ہے جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایک لیٹر دودھ کے لیے پیپر بورڈ سے بنائے گئے سنگل یوز کارٹن، پلاسٹک کی بوتلوں کے مقابلے میں کاربن اخراج میں 82 فیصد کم حصہ ڈالتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کارٹن بھی مکمل طور پر پلاسٹک سے پاک نہ ہوں لیکن پھر بھی وہ پلاسٹک کی بوتلوں کے مقابلے میں بہت کم کاربن اخراج میں حصہ ڈالتے ہیں ۔ اس حوالے سے ہم نے بالخصوص خواتین کے لیے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ گھروں اور عام استعمال کے لیے پلاسٹک کے بجائے کونسی چیز استعمال کر سکتی ہیں۔

اینجل امداد کا اس بارے میں کہنا ہے کہ جب بھی خریداری کیلئے جائیں تو ایک کپڑے کا تھیلا ساتھ لے کر جائیں۔ تو جو بھی سامان آپ راستے میں خریدیں گے تو سیدھا آپ اسے بیگ میں ڈال پائیں گے اور اس سے آپ پلاسٹک شوپر خریدے گے نہیں اور جب آپ خریدیں گے نہیں تو وہ کچرے میں نہیں جائے گا اور کچرا نہیں بنے گا۔

اینجل امداد کہتی ہیں کہ لوگ اپنے کچرے کو الگ الگ کر کے یہ ہرگز نا سوچیں کہ جب اسے کچرے والا لے جائے گا تو سب مکس ہی ہوجانا تو اس سے آخر کیا ہی فرق پڑے گا، لیکن ایسا ہر گر نہیں۔ اینجل امداد کہتی ہیں کہ کچرے کو ری سائیکل کرنے کیلئے اسے لوکل کباڑی کو بھی دیا جاسکتا ہے یا پھر ہمیں یا ہماری جیسی کمپنی کو کچرا دیا جاسکتا ہے۔ہم بھی گھروں سے کچرا لے جاتے ہیں اور اسکو 100 فیصد ری سائیکل کرسکتے ہیں۔اگر سب لوگ بھی تھوڑی تھوڑی جدوجہد کریں تو سب ملکر اسکا بہت بڑا اثر ڈال سکتے ہیں۔

جواب دیں

اقسام

رابطہ کی معلومات

ہمیں فالو کریں