سستے اور فیشن کے مطابق کپٹرے محدود مدت کے استعمال کے لیے خریدے جاتے ہیں، اور جیسے ہی فیشن بدلتا ہے، تو انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ ایسے ملبوسات کے لیے لباس تیار کرنے والی کمپنیوں کی دنیا میں اسے ’فاسٹ فیشن‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق فاسٹ فیشن کے باعث دنیا بھر میں 1.2 بیلن ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتا ہے جو کہ دنیا کے کل اخراج کا 10 فیصد ہے جو ہوا بازی اور جہاز رانی کی صنعت کے اخراج سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی فاسٹ فیشن کے شدید ماحولیاتی اثرات ہیں جس کے لئے موثر اقدامات اورعوام کو آگاہی کی ضرورت ہے۔ اسی حوالے سےپاکستان میں سسٹین ایبل فیشن پر کام کرنے والی ڈیزائینر پریشے عدنان نے خواتین کو کپڑے ری سائیکل کرنے سے متعلق آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کئی کپڑوں کو ری سائیکل کرسکتی ہیں۔
پریشے عدنان کے مطابق خواتین اپنی والدہ، دادی یا نانی کے ملبوسات کو دوبارہ اپنی مرضی کے مطابق سلواسکتی ہیں۔ اسکے علاوہ خواتین کے پاس 4 سے 5 قیمض اور 4 سے 5 شلوار اور دوپٹے ہوں تو وہ انہیں بھی الگ الگ کمبی نیشن کے ساتھ پہن سکتی ہیں۔ فاسٹ فیشن کس حد تک ماحول کیلئے نقصان دہ ہے اسکا اندازہ چلی میں موجود ڈمپنگ یارڈ سے لگایا جاسکتا ہے جہاں جہاں دنیا بھر سے ہر سال سمندر کے راستے تقریباً 59000 ٹن کے قریب وہ کپڑے آتے ہیں، جو فیشن بدلنے سے پہلے فروخت نہیں ہو پاتے یا پھر ان کی تیاری کے دوران فیشن بدل جاتا ہے۔
اسی سلسلے میں ٹائمز آف کراچی نے کراچی کی خواتین سے آن لائن سروے کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 53 فیصد خواتین کو اندازہ ہے کہ فاسٹ فیشن ماحول پر برا اثر ڈالتا ہے اس کے باوجود صرف 35فیصد خواتین کپڑے لیتے ہوئے سیسٹین ایبل فیشن کا سوچتی ہیں۔ کپڑوں کے خرید و فروخت کی بات آئے تو 74 فیصد خواتین ایک سے تین ماہ کے دوران لازمی کپڑوں کی خریداری کرتی ہیں 52 فیصد خواتین کپڑے ری سائیکل اور ری یوز کرتی ہیں۔ فیشن کے غیر موثر اثرات کو جانتے ہوئے بھی صرف 38 فیصد خواتین اپنی خریداری کے رجحان کو تبدیل کرنے کی سوچ رکھتی ہیں۔
اس حوالے سے ڈیزائنر پریشے عدنان نے خواتین کو بتایا ہے کہ وہ ماحول دوست رہ کر بھی فیشن ایبل رہ سکتی ہیں۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ بہت زیادہ تعداد میں کپڑے نہ خریدیں۔ اسکے علاوہ خواتین لنڈا بازار سے بھی خریدار کرسکتی ہیں۔یو این الائین سیسٹین ایبل فیشن کے اعدادو شمار کے مطابق فیشن انڈسٹری کو سالانہ دو سو پندرہ ٹریلن پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا بھر میں پانی کے تناؤ کا سبب بنتا ہے۔ ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے پریشے عدنان نے فاسٹ فیشن کے نقصانات کو بھی اجاگر کیا ہے۔
پریشے عدنان کا کہنا ہے کہ فاسٹ فیشن کے ہمارے ماحول پر بہت مضراثرات پڑ رہے ہیں۔ فیصل آباد اور لاہور کی مثال ہی لی جاسکتی ہے جہاں انکی انڈسٹری کی وجہ سے فضا آلودہ ہوتی ہے۔ پریشے عدنان نے حکومت کو فاسٹ فیشن پر ٹیکس عائد کرنے کا بھی مشورہ دیا۔
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی آلودگی پر قابو پانے کاایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ مصنوعی ریشوں سے بننے والے ملبوسات سے اجتناب کیا جائے۔ ملبوسات کو جلد پھینکنے کی بجائے ان کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ ملبوسات کا کچرا کم کرنے میں مدد مل سکے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قلیل وقفوں سے یعنی جلدی جلدی فیشن بدلنے کے رجحان کو روکا جائے۔