پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے کہا ہے کہ افغانستان میں اب اسلامی حکومت قائم ہے، پر امن حالات ہیں اور اب فضا بن گئی ہے کہ افغان مہاجرین اپنے ملک جائیں، افغان مہاجرین کے لیے افغانستان میں کمیشن بنایا گیا ہے۔ طورخم بارڈر کے اس پار افغانستان میں کیمپ بھی قائم کیا گیا ہے۔ ہم پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری ، ہمیں کسی قسم کی شکایت نہیں ہے۔
یہ بات انہوں نے بدھ کو افغان قونصل خانے میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہی۔ افغان قونصول جنرل محب اللہ نےکہاکہ افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور انہیں ٹرانسپورٹ سمیت تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ عید کے دوسرے روز افغانستان کے سفر کے دوران افغان حکومت کے سپریم کمانڈر ملا ہبت اللہ اخونزادہ سے افغان مہاجرین کے مسئلے پر گفتگو ہوئی ہے اور ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا گیا ، میر المومنین ہیبت اللہ اخونزادہ افغان شہریوں کی واپسی سے خوش ہیں۔افغان حکومت نے مہاجرین کے لیے افغانستان میں کمیشن بنایا ہے۔ طورخم بارڈر کے اس پار افغانستان میں کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں وطن واپسی پر مہاجرین کو تمام سہولیات دی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مہاجرین نے پاکستان میں اسلام کی خاطر ہجرت کی، افغان مہاجرین نے پاکستان میں 40 سال گزارے۔ افغانستان پر حملے کے بعد افغان مہاجرین نے خالی ہاتھ پاکستان ہجرت کی،پاکستان میں رہنے والے افغانوں نے یہاں چار دہائیوں تک تعلیم، کاروبار اور روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھایا اور یہاں حلال رزق کمایا، جس پر ہم پاکستان کے مشکور ہیں۔ تاہم، اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جا کر اس کی ترقی میں حصہ ڈالیں۔ اب فضا ہے کہ مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں، افغانستان میں اب امن اور اسلامی حکومت قائم ہے، افغان مہاجرین اپنے ملک میں سرمایہ کاری سمیت زندگی آرام سے گزار سکتے ہیں۔ افغانوں کو اب تشویش نہیں ہونی چاہیے، وہاں ان کے لیے تمام سہولیات موجود ہیں، کنڑ میں کاروباری افراد کو زمینیں دی جارہی ہیں، کاروبار کے لیے ماحول سازگار ہے۔ پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری ، ہمیں کسی قسم کی شکایت نہیں ہے۔ افغانستان میں روس اور امریکا کی حکومت نہیں، اب ہم افغانستان کو آباد کریں گے، افغانستان میں ایسے امیر لوگ ہیں جو اپنے افغان بھائیوں کی مدد کررہےہیں، افغانستان میں ایسے تاجربھی موجود ہیں، جوافغانستان آنے والے بھائیوں کی مدد کررہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں افغان قونصل جنرل نے کہا کہ افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیم بھی دی جائے گی، اسلام تعلیم کا درس دیتا ہے، اور افغانستان میں تعلیم پر کوئی پابندی نہیں ہے، تاہم طرز تعلیم پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔ خواتین کی تعلیم کے لیے الگ ادارے قائم کیے جائیں گے تاکہ ان کے لیے محفوظ ماحول میسر ہو۔ وہاں ایسی خواتین بھی ہیں جو پاسپورٹ دفاتر میں کام کرتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں، جب مہاجرین پاکستان میں آکر آباد ہوئے تو اس وقت بھی بے سروسامانی کی حالت تھی، کسی کی کوئی جائیداد یا کاروبار پاکستانی حکومت ضبط نہیں کر رہی، پاکستانی حکام سے بات چیت چل رہی ہے ہماری کوشش ہے کہ واپسی کا عمل میں افغانوں کے لیے سہولیات دی جائیں۔ افغان قونصل جنرل سے سوال ہوا کہ پاکستان حکومت کو افغان مہاجرین کو نکالنے میں مزید وقت دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کئی دہائیوں کے کاروبار اتنی جلدی میں کیسے ختم کرسکتے ہیں اس کے لئے وقت درکار ہے۔ تاہم قصل جنرل نے اس بات کا جواب دینے سے گریز کیا۔
انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ اب تک 76 ہزار افغان مہاجرین پاکستان سے افغانستان واپس جا چکے ہیں، اور باقی شہریوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ وطن واپسی کی تیاری کریں۔پاکستان سے کوئی شکایت نہیں، یہاں مہاجرین کے ساتھ مکمل تعاون کیا گیا، مگر اپنا وطن، اپنا ہی ہوتا ہے۔ افغانستان کے مشران اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، کسی کو تشویش کی ضرورت نہیں۔