Close Button
Karachi
Current weather
Humidity-
Wind direction-

سینیٹ: پارلیمانی سال میں اجلاس زیادہ، لیکن اوقات کار و قانون سازی میں کمی

سینیٹ

سینیٹ آف پاکستان کے پارلیمانی سال 2024-2025ء میں ایوان مکمل نہ ہوسکا، سینیٹ نے گزشتہ چار پارلیمانی سالوں کے مقابلے میں پارلیمانی سال 2024-2025ء میں 14 فیصد زیادہ اجلاس منعقد کیے، تاہم قانون سازی اور اوقاتِ کار میں نمایاں کمی رہی اور کورم کے مسائل بھی درپیش رہے۔ مجموعی طور پر 117 گھنٹے 22 منٹ اجلاس کی کارروائی جاری رہی اور صرف 5 ارکان نے 4 یا اس سے زائد گھنٹے گفتگو کی۔ سینیٹ آف پاکستان کی پارلیمانی سال 2024-2025ء کی سالانہ جائزہ رپورٹ پارلیمانی اداروں پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ نے منگل کو جاری کی۔

پلڈاٹ کی 30 صفحات پر مشتمل تجزیاتی رپورٹ کے مطابق، نجی ارکان کے بلوں میں نمایاں کمی جبکہ آرڈیننسز میں اضافہ دیکھا گیا۔ رپورٹ میں طریقہ کار کی شفافیت اور سینیٹ کی نمائندگی کے مؤثر ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 8 اپریل 2025ء کو مکمل ہونے والے پارلیمانی سال 2024-2025ء کے دوران 65 اجلاس ہوئے اور کل اوقاتِ کار 117.22 گھنٹے رہے۔ اگرچہ اجلاسوں کی تعداد گزشتہ پانچ پارلیمانی سالوں کے مقابلے میں زیادہ رہی، تاہم اوقاتِ کار میں 20.3 فیصد کمی آئی۔ پارلیمانی سال 2023-2024ء میں 57 اجلاس اور اوقاتِ کار 147.13 گھنٹے، 2022-2023ء میں 57 اجلاس اور 132.51 گھنٹے، 2021-2022ء میں 56 اجلاس اور 161 گھنٹے، 2020-2021ء میں 60 اجلاس اور 183.45 گھنٹے، جبکہ 2019-2020ء میں 65 اجلاس اور 127.58 گھنٹے رہے۔

سال 2024-2025ء میں سینیٹ نے 51 بل منظور کیے، جن میں 34 حکومتی اور 17 نجی ارکان کے بل شامل تھے۔ تاہم، نجی ارکان کی قانون سازی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 63.8 فیصد کمی آئی۔ حکومتی آرڈیننسز کی تعداد بھی بڑھ گئی، جن میں 16 آرڈیننس سینیٹ میں پیش کیے گئے، جو  2023-2024ء میں پیش کیے گئے صرف ایک آرڈیننس کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔

پارلیمانی سال 2024-2025ء کے دوران ارکان کی حاضری کی شرح میں بہتری آئی اور اوسط حاضری 62 فیصد رہی، تاہم کورم کے مسائل برقرار رہے اور 16 اجلاس ارکان کی کم حاضری کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے۔ پارلیمانی سال 2023-2024ء میں اوسط حاضری 55 فیصد، 2022-2023ء میں 56 فیصد، 2021-2022ء میں 72 فیصد، 2020-2021ء میں 62 فیصد اور 2019-2020ء میں 69 فیصد رہی۔

قائدِ ایوان کی حاضری پارلیمانی سال 2024-2025ء میں صرف 28 فیصد رہی، جو گزشتہ چھ سالوں میں سب سے کم ہے، جبکہ قائد حزب اختلاف کی حاضری 80 فیصد رہی۔ 2023-2024ء میں قائدِ ایوان کی حاضری 58 فیصد اور قائد حزب اختلاف کی 53 فیصد، 2022-2023ء میں قائدِ ایوان کی 81 فیصد اور قائد حزب اختلاف کی 93 فیصد، 2021-2022ء میں قائدِ ایوان کی 100 فیصد اور قائد حزب اختلاف کی 71 فیصد، 2020-2021ء میں قائدِ ایوان کی 98 فیصد اور قائد حزب اختلاف کی 75 فیصد، جبکہ 2019-2020ء میں قائدِ ایوان کی 86 فیصد اور قائد حزب اختلاف کی 91 فیصد رہی۔

پارلیمانی سال 2024-2025ء میں صرف 5 ارکان نے 4 یا اس سے زائد گھنٹے ایوان میں گفتگو کی، جن میں قائد حزب اختلاف سینیٹر سید شبلی فراز (تحریک انصاف) 11.26 گھنٹے، وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ (مسلم لیگ نواز) 10.56 گھنٹے، سینیٹر سید علی ظفر (تحریک انصاف) 4.32 گھنٹے، سینیٹر ایمل ولی خان (عوامی نیشنل پارٹی) 4.25 گھنٹے اور سینیٹر شیری رحمان (پیپلز پارٹی) 3.56 گھنٹے شامل ہیں۔

رپورٹ میں اہم سیاسی واقعات کا ذکر بھی شامل ہے، جن میں خیبر پختونخوا کی 11 سینیٹ نشستوں کا خالی رہنا، کارروائی میں عدم شفافیت، عدلیہ کی اصلاحات اور فوجی قیادت کی مدت میں توسیع سے متعلق قانون سازی شامل ہیں، جنہوں نے سیاسی تناؤ کو مزید بڑھایا۔ اس کے علاوہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بل پر سینیٹ کے چیئرمین کے طرز عمل نے اپوزیشن کی طرف سے شکایات کو جنم دیا، جس سے طریقہ کار کی منصفانہ حیثیت پر سوالات اٹھے۔

پلڈاٹ کے تجزیے کے مندرجات پاکستان میں سینیٹ کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں سیاسی محاذ آرائی نے قانون سازی اور طریقہ کار کو متاثر کیا۔ رپورٹ میں سینیٹ میں زیادہ شفافیت، طریقہ کار کی دیانت داری اور جمہوری نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

Share this news

Follow Times of Karachi on Google News and explore your favorite content more quickly!
جواب دیں
Related Posts