زکواۃ اسلام کا ایک اہم رکن اور مالی عبادت ہے زکواۃ کے معنی پاک ہونا، بڑہنا اور نشو نما پانا کے ہیں۔ زکواۃ کی ادائیگی محض دولت کی تقسیم کا عمل نہیں بلکہ یہ مسلمان کے مال کو پاک کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے قلب اور روح کے میل کچیل کو بھی صاف کر دیتی ہے۔ قران پاک میں جا بجا زکواۃ کی ادائیگی کا حکم آیا ہے۔
شریعت کے مطابق زکواۃ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو صاحب نصاب ہو، صاحب نصاب ہونے سے مراد اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی، یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہو ، یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کرمجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو، تو ایسے شخص پر پورا سال ہونے پرقابلِ زکواۃ مال کا ڈھائی فیصد زکواۃ ادا کرنا لازم ہے۔
اسلام میں زکواۃ کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں جن میں فقراء یعنی وہ لوگ جن کے پاس گزر بسر کیلئے کچھ نہ ہو ،
مساکین یعنی وہ لوگ ہیں جن کے جا ئز اخراجات زیادہ ہو ں اور آمدن کم ہو
عاملین زکواۃ یعنی جو زکواۃ وصو ل کر نے اس کا حساب وکتاب رکھنے کے ذ مہ دارہوں،
مؤلف القلوب یعنی وہ کا فر جس سے امید ہو کہ وہ مال لے کرمسلمان ہو جا ئے گا یا مسلمانو ں کو تکلیف دینے سے رک جائے گا،
گردنیں آزاد کروانے کیلئے، یعنی غلام مسلمان کو آزاد کروانے کے لئے ،
مقروض جو اپنا قرض ادا نہیں کر سکتے
فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا
وہ مسافرجس کا دوران سفر زاد راہ ختم ہو گیا اس کو زکواۃ کے مال سے دینا تا کہ منزل مقصود تک پہنچ جا ئے۔
زکواۃ کی رقم سید ، ہاشمی ، امیر و مالدارا، غیرمسلموں کو نہیں دی جاسکتی، سید اور ہاشمی کو حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے ذکواۃ دینا جائز نہیں جبکہ امیر و مالدار صاحب نصاب ہوتے ہیں اور ان پر خود ہی ذکواۃ فرض ہو تی ہے، چونکہ یہ خالص دینی عبادت ہے اس لئے ذکواۃ کی رقم صرف اور صرف مسلمانوں پر ہی خرچ کرنے کا حکم ہے