سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے سندھ بھر میں موجود کچی آبادیوں کی ڈیٹا سمیت ریگیولر کی گئی کچی آبادیوں کا ریکارڈ اور سندھ بھر کی کچی آبادیوں کے رہائشی افراد کو جاری ہونے والے مالکانہ حقوق کی سندوں اور کچی آبادیوں کی ریگیولرائیزیشن کے طریقے کار سمیت کچی آبادیوں کے ریگیولر کئے جانے والے پلاٹس کے ریٹس کی تفصیلات بھی 10 دن میں متعلقہ محکمے سے طلب کرلی ہیں۔
پی اے سی کا اجلاس جمعرات (31 اکتوبر) کو چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی صدارت میں سندھ اسمبلی کی کمیٹی روم میں ہوا۔ اجلاس میں سیکریٹری ہیومن سیٹلمنٹ،اسپیشل ڈولپمنٹ شارق احمد، محکمے کے ڈاریکٹر فنانس بلال شیخ، ڈی جی آڈٹ سندھ سمیت متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں محکمے کی سال 2018ء سے 2021ء تک مختلف آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں ہیومن سیٹلمنٹ محکمہ کچی آبادی اتھارٹی کو گرانٹ ان ایڈ کی مد میں جاری ہونے والے فنڈز اور ڈفرنس بلز کی مد میں 131.901 ملین روپے کی آڈٹ کا ریکارڈ فراہم نہیں کرسکا۔ پی اے سے چیئرمین نے محکمے کو 10 دنوں میں آڈٹ ریکارڈ فراہم کرنے کی مہلت دے دی۔
چیئرمین پی اے سی نثار احمد کھوڑو کا محکمے کے سیکریٹری سے پوچھا کہ سندھ بھر میں کتنی کچی آبادیاں ہیں اور کتنی کچی آبادیوں کو تاحال ریگیولر کیا گیا ہے۔ کچی آبادیوں کو ریگیولر کرنے کا کیا طریقے کار ہے اور کچی آبادیوں کے پلاٹوں کو کس ریٹ کے حساب سے ریگیولر کرنے کے لئے کتنی رقوم کے چالان جاری ہوتے ہیں۔ سیکریٹری محکمہ ہیومن سیٹلمنٹ شارق احمدنے جواب میں کہاکہ سندھ بھر میں 14 سو کچی آبادیاں ہیں جن میں سے 582 کچی آبادیاں کراچی میں ہیں۔
چیئرمین پی اے سی نے پوچھا کہ کچی آبادیوں میں موجود کتنے افراد کو مالکانہ حقوق کی سندیں جاری ہوئی ہیں اور اس متعلق کتنی رقوم کے چالان جاری ہوئے ہیں۔ ریجنل ڈاریکٹر کچی آبادی بلال شیخ نے بتایا کہ کراچی میں 250روپے فی گز کے حساب سے 120 گز کے کچی آبادی کے پلاٹ کو ریگیولر کرنے کا چالان جاری کیا جاتا ہے تاہم مختلف علاقوں اور مختلف اضلاع کے ریٹس مختلف ہیں۔مگر 2021ء سے لوگ چالان کی فیس جمع نہیں کر پا رہے ہیں اس لئے سندیں جاری ہونے کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
نثار احمد کھوڑو نے پوچھا کہ کراچی میں کچی آبادی کے پلاٹوں کی قیمت لاکھوں میں ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کے وہاں رہنے والے لوگ 250 روپے فی گز کے حساب سے بھی چالان کی رقم ادا نہیں کرپا رہے ہوں۔ ہم چاہتے ہیں سندھ میں موجود کچی آبادیوں اور گاوں کو ریگیولر کرکے وہاں رہائش پذیر افراد کو مالکانہ حقوق دئے جائیں موجودہ کچی آبادیوں کے علاوہ نئی کچی آبادیاں بڑھنے کا رجحان ختم ہونا چاہئے اور جو نئی کچی آبادیاں بڑھتی جارہی ہیں ان کو روکا کیوں نہیں جاتا۔ سندھ میں کتنی کچی آبادیاں ہیں اور اب تک کتنی کچی آبادیوں کو رگیولر کیا گیا ہے وہ تمام ڈیٹا پی اے سی کو فراہم کیا جائے۔
چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے محکمے کو ہدایت کی ہے کہ کچی آبادیوں میں موجود کتنے افراد کو مالکانہ حقوق کی سندیں جاری ہوئی ہیں اس سمیت ریگیولرائیزیشن کے طریقے کار اور مالکانہ حقوق کے لئے سندوں کی مد میں کتنی رقوم کے چلان جاری ہوتے ہیں وہ تمام تفصیلات پر مبنی ریکارڈ پی اے سی کو دس دنوں میں فراہم کیا جائے ۔