بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ایک ایسا منصوبہ جسکے زریعے چین دنیا بھر میں اپنی معاشی برتری حاصل کر کے ایک نئے سپر پاور کے روپ میں سامنے آنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ 2013 میں شروع ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا بنیادی مقصد منصوبے سے جڑے 150 سے ذائد ممالک میں معیشت اور تجارت کو ترقی دینا، تجارتی اور کاروباری اخراجات میں کمی لانا اور ان ممالک کی جی ڈی پی میں اضافہ کرنا ہے۔
چین اس منصوبے کو دنیا کی مشترکہ تعمیر و ترقی اورجغرافیائی سوچ سے بالا تربین القوامی ترقی کا منصوبہ قرار دیتا ہے۔ چین اس منصوبے کے زریعے منسلک ممالک کے لئے ترقی کی نئی راہ بھی کھولنے کا دعوی کرتا ہے۔ یہ منصوبہ چھ اربن کوریڈور پر مشتمل ہے جو ریل ، روڈ ، بندگاہوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے علاوہ توانائی اور ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کے بے شمار منصوبوں پر مشتل ہے۔
مگر یہ عظیم منصوبہ یقینا سب کے لئے اک حسین خواب نہیں یہی وجہ ہے کہ اس کی تعمیر میں دنیا بھر میں چین کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے ، دہشت گردی، خود کش حملے ، اغوا برائے تاوان ، انفرا اسٹرکچر کی تباہی اور دیگر بے شمار عوامل اس عظیم منصوبے کی راہ میں حائل ہیں اور چین اپنے عظیم منصوبے کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے مسلسل جانی اور مالی قربانیاں دے رہا ہے ، تاہم اپنے ارادوں میں پختگی کے باعث قیمتی جانوں کے نقصان کے باوجود یہ حملے چین کو آگے بڑہنے سے نہیں روک پا رہے ہیں۔
اتوار کو کراچی ائر پورٹ کے قریب چینی قافلے پرہونے والا مبینہ خود کش حملہ انہیں حملوں سے میں سے ایک تھا جس میں دو چینی شہری ہلاک اور ایک زخمی ہوگئے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں ایک پاکستانی جاں بحق جبکہ کئی زخمی بھی ہوئے۔ مرنے والے چینی باشندے کراچی میں پورٹ قاسم پر زیر تعمیر بجلی گھروں کے منصوبے پر کام کرنے والوں میں شامل تھے۔
پاکستان میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک یعنی ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ کا منصوبہ بھی زیر تعمیرہے۔ جس پرچین نے 60 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔اس سے منسلک منصوبوں پر کام کرنے کے لیے چینی انجینئرز اور دیگر کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔
چین کی وزارت تجارت کے 2022 کے اعداد و شمارکے مطابق، تقریباً پانچ لاکھ 68 ہزار چینی باشندے دنیا بھر میں چینی کمپنیوں کے زیرِانتظام منصوبوں میں ملازمت کر رہے ہیں ۔ان میں سے زیادہ تر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہیں۔کراچی میں حالیہ حملہ پاکستان میں چینی باشندوں یا اس کے منصوبوں کو نشانہ بنانے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں چینی ترقیاتی منصوبوں سے منسلک 16 حملے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں 20 کے قریب چینی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں سے متعدد کی ذمہ داری کلعدم جماعتوں نے قبول کی جبکہ چند حملوں کے لیے حکومت نے ’غیرملکی عناصر‘ کو ذمہ دار قرار دیا۔
بی بی سی کے مطابق کلعدم جماعت نے رواں برس مارچ میں بلوچستان میں گوادر بندرگاہ کے قریب نیول ایئربیس پر حملہ کرنے کا اعتراف بھی کیا، جسے چینی کمپنیاں تیار کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ، اس نے اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں چین کے زیر انتظام کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی ماہرین تعلیم اور ان کے پاکستانی ڈرائیور کو ہلاک کرنے کا بھی دعوی کیا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ کلعدم تنظیم واحد نہیں جس نے پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا ہو۔ رواں برس مارچ میں پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں خودکش حملے میں پانچ چینی باشندے اور ان کا ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوا اس کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان نے ’غیرملکی عناصر‘ پر عائد کی تھی۔ اس سے قبل سنہ 2021 میں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں بھی ایک بس کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں چینی باشندوں پر حملے:
افریقی ملک کانگو میں سونے کی کانوں میں کام کرنے والے چینی ملازمین پر کئی حملے ہو چکے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے جولائی 2024 میں چھ چینی شہریوں اورکانگو کے دو فوجیوں کی ہلاکت کی خبر دی تھی۔ جنوری 2022 میں، نائیجیریا میں مسلح افراد نے تین چینی کارکنوں کو ایک ڈیم کی تعمیر کے مقام سے اغوا کیا۔ افغانستان میں بھی تاوان کی غرض سے چینی باشندوں کے اغوا کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔
اپنے باشندوں کے تحفظ کے لئے چینی حکومت کے اقدامات:
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق چینی حکومت اورکمپنیاں اپنےکارکنوں کے تحفظ اور انہیں چھڑانے کے لئے تاوان کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ میزبان ملکوں میں حکومتوں پر اپنےشہریوں کی سیکیورٹی کے لئے بہتر سیکیورٹی اقدامات کرنے کے لئے دباو بھی ڈالتی ہے، اس کے علاوہ چین دہشت گردوں کی تلا ش اور شناخت کے لئے ٹیکنالوجی کی فراہمی کر کے بھی اپنے کارکنوں پر حملے اور انہیں کام کرنے کے لئے محفوظ ماحول فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
چین منصوبے سے جڑے عدم استحکام کا شکار ممالک کی مسلح افواج کو تربیت بھی فراہم کر رہا ہے اسکے ساتھ ساتھ چینی کمپنیوں نے دہشت گردوں سے بچنے کے لئے نجی سکیورٹی اداروں کی خدمات بھی حاصل کر رکھیں ہیں۔ تازہ ترین حملے کے بعد پاکستانی حکومت کی جانب سے چینی باشندوں کی سیکیورٹی مذید سخت کرنے اور ملوث دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ چینی سفارت خانے نے بھی پاکستان میں اپنے شہریوں اور چینی کاروباری اداروں کو چوکس رہنے اور حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔