سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے، نجی شعبے میں زیادہ تنخواہ کے باعث ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں نہیں آنا چاہتے، امریکہ میں کام کرکے ڈاکٹرز کروڑپتی بن جاتے ہیں، پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی ہے لیکناس پر عمل درآمد کرانامشکل ہے، ڈاکٹرز کی بائیو میٹرک حاضری کا سلسلہ دوبارہ شروع کررہے ہیں۔
انہوں نے یہ بات جمعرات (23 مئی) کو سندھ اسمبلی میں محکمہ صحت سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتائی۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سید اویس قادر شاہ کی زیر صدارت آدھے گھنٹہ کی تاخیر سے دن ساڑھے 11 بجے شروع ہوا۔
وقفہ سوالات کے دوران پیپلز پارٹی کی خاتون رکن ماروی راشدی کی جانب سے دریافت کیا گیا کہ لیڈی ہیلتھ ورکر کی تعلیم کیا ہوتی ہے؟ وزیر صحت نے بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکر کی تعلیم انٹر ہوتی ہے اس کے بعد انہیں مزید تربیتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے ۔انہیں مختلف حادثات کے نتیجے میں ذخمی ہونے والے مریضوں اور امراض سے نمٹنے کی بھی ٹریننگ دیتے ہیں ۔ 60 سال کی عمر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز ریٹائر ہوتی ہیں۔
وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں می لیڈی ہیلتھ ورکرز کو چینی حکومت کے تعاون سے ایک ہزار گھر بنا کردئیے جائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پولیو ویکسین سے انکاری والدین کو سمجھانے کے لئے ایڈیشنل کمشنر سمیت مختلف لوگوں کو رکھا گیا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز انکاری والدین کی نشاندہی کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ایک لاکھ 30 ہزار والدین پولیو سے انکاری ہیں۔ 19000سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز صوبے مین کام کر رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کے جمال احمدنے نشاندہی کی کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں سیوریج والا پانی لوگوں کو فراہم کیا جارہا ہے جس کے سبب گیسٹرو کے کیسز بڑھ رہے ہیں وزیر صحت نے کہا کہ ورلڈ بنک کے تعاون سے ایک اسکیم موجود ہے ،پانی کی سمپلنگ کر کے کوالٹی چیک کی جائے گی۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ سے صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ شہریوں کو صاف ملے۔
رکن اسمبلی فوزیہ حمید کے سوال کے جواب میں وزیر صحت نے کہا کہ سندھ میں ایچ آئی وی اور ڈزیز کی آگاہی کے حوالے سے کئی پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔
ایم کیو ایم محمد دانیال کے سوال کے جواب میںوزیر صحت نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی بھی ڈاکٹرز کی کمی ہے۔ سرکاری نوکری کے لئے کمیشن کا امتحان دینا پڑتا ہے اس لئے ڈاکٹرز پرائیویٹ سیکٹرز میں چلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹرعذرا نے بتایا کہ کورنا دور کے بھرتی ڈاکٹرز کو مستقل کر رہے ہیں ۔مزید ڈاکٹرز کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔سرکاری نوکری کی تنخواہ کم ہے۔ اس لئے ڈاکٹرز نجی اسپتالوں میں چلے جاتے ہیں ۔ سندھ کے سرکار اسپتالوں میں ماہر ڈاکٹرز کی کمی ہے۔ وزیر صحت نے کہا کہ سرکاری ڈاکٹرز پرائیوٹ پریکٹس نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس تنخواہ کم ہے اس لیے وہ پرائیوٹ کلینک کرتے ہیں ۔ ہم سرکاری اسپتالوں میں پرائیوٹ او پی ڈیز بنا رہے تاکہ ڈاکٹرز وہیں پریکٹس کریں۔
آزاد رکن اسمبلی فرحان راجپوت کے ایک سوال کے جواب مین وزیر صحت نے کہا کہ جناح اورلیاقت ہسپتال حیدرآباد میں ربورٹ کہ سہولت دے رہے ہیں اس طریقہ کار سے کم وقت میں سرجری ہوتی ڈاکٹرز کاکہناتھاکہ ربوٹ سرجری سے انفکشن نہیں ہوتا اورربورٹ سے ہونے والی سرجری سے پیچیدگی کم ہوتی ہے۔
ایم کیوایم کے صابرقائم خانی کا سوال میڈیکل اسٹاف کی کمی ہیں حیدراباد میں سول ہستپال میں عملے کی کمی ہے۔وزیر صحت نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے ضروری اقدامات کررہی ہے۔ اس وقت کراچی اورلاڑکانہ میں دو ٹراما سینٹرز کام کررہے ہیں جبکہ دو مزید ٹراما سینٹرز کا پی سی ون تیار ہے۔
ایوان کی کارروائی کے رکن اسمبلی بلال جدون نے کہا کہ کراچی میں پانی بنیادی مسئلہ ہے ، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن اس شہر میں لوگوں کو گٹر کاپانی مہیا کیا جارہا ہے ،انہوں نے کہا کہ ہر کسی کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ ٹینکر خریدے وزیر بلدیات سے درخواست ہے کہ دعائیں لیں ۔انصاف نہیں مل رہا میرے حلقے میں پانی کی فراہمی بہتر بنائی جائے ۔
صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ کچھ ممبرز نئے آئے ہیں اسمبلی میں سوال اتنا پوچھا جائے جسکی انہیں اجازت ہو ۔یہ بات درست ہے کہ کراچی میں پانی کی قلت ہے ۔کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے ،سول لائن میں پانی کی فراہمی میں کمی آئی ہے ۔
سعید غنی نے کہا کہ کے الیکٹرک والے جن علاقوں کی بجلی بند کرتے ہیں ان علاقوں میں پانی نہیں ملتا ۔صدر جمشید ٹائون میں بجلی کی وجہ سے پانی کی فراہمی معطل ہوتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ کراچی میں سب کو پانی ملے اور جو قلت ہے وہ کم ہوسکے۔
ایوان کی کارروائی کے دوران رکن اسمبلی جمال احمد نے اپنے توجہ دلائونوٹس میں کہا کہ ہمارے علاقے میں بس اسٹینڈ بن گئے ہیں جس سے بہت پریشانی ہوتی ہے ، کراچی میں عوام سے زیادہ سڑکوں پر چنگچی رکشہ نظر آتے ہیں۔
وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے کہا کہ ہم نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کئی منصوبے شروع کئے تھے مگر سابقہ نگراں حکومت کی نااہلی ہے کہ بی آر ٹی بس منصوبے میں تاخیر ہوئی۔ ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبہ مشن امپوسیبل ہوتا جارہا تھا اب کام شروع ہوگیا ہے۔
شرجیل میمن نے کہا کہ ہماری حکومت اس لئے بنتی ہے کہ ہم لوگوں کی پریشانی میں کام آتے ہیں۔ حکومت سو نہیں رہی ہمارایہی مقصد ہے کہ لوگوں کو ریلیف دیں۔انہوں نے کہا کہ شہر میں چنگچی رکشہ عدالتی اسٹے کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ نے بہت سی ٹرانسپورٹ گاڑیوں سے گیس سلینڈرز نکالے ہیں۔
بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس پیر کی دوپہر ڈھائی بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔