سینیٹ انتخابات 2024 میں سندھ کی دلچسپ صورتحال

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور چاروں صوبوں سے سینیٹ کی 48 نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل مکمل اورجانچ پڑتال جاری ہے، سینیٹ انتخابات 2024 کے لیے  پولنگ 2 اپریل کو ہوگی۔

اس وقت سندھ میں سینیٹ  انتخابات 2024 دلچسپ صورتحال اختیار کرگئے ہیں،  بالخصوص  تحریک انصاف کے سابق رہنماء فیصل واوڈا  کی جانب سے آزاد حیثیت میں  کاغذات  نامزدگی جمع کرانے کے   بعدیہ سوال  کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے  ووٹ کہاں سے پورے کریں گے ، تاہم انکے تائید اور تجویز کنندہ   متحدہ قومی پاکستان  کے ارکان  ہیں ۔  2 اپریل کو سندھ اسمبلی مجموعی طور پر 12 سینیٹرز کا انتخاب کرے گی، جن میں سے 7 جنرل ، 2 خواتین  ، 2 علماء و ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی نشست  ہے۔

سندھ سے سینیٹ کی خالی 12 نشستوں کے مجموعی طور پر  35 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کئے ہیں، جن میں سے 7 جنرل نشستوں کے لئے 21،  علماء  و ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں کے لئے 5،  خواتین 2 نشستوں کے لئے 6 اور ایک اقلیتی نشست کے لئے 3 امیدوار میدان میں ہیں۔

ان امیدواروں میں  17 امیدواروں کے  ساتھ پیپلزپارٹی  پہلی پوزیشن  پر ہے ۔ اسی طرح  متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار بھی میدان میں ہیں ۔

اس پورے عمل میں جنرل نشستوں پر دو  آزاد امیدواروں کی انٹری حیران کن ہے، یعنی  تحریک انصاف کے سابق باغی رہنماء فیصل واوڈا اور  محمدنجیب ہارون، اگر چہ ان دونوں کے تائید اور تجویز کنندگان کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے ہے، لیکن ایم کیوایم پاکستان کے اپنے 4  امیدوار بھی انہی نشستوں کے لئے میدان میں موجود ہیں ، سندھ اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے حساب سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اپنی عددی پوزیشن پر صرف ایک جنرل نشست ہی نکال سکتی ہے۔

سندھ اسمبلی کا ایوان مجموعی طور پر  168 رکنی  ہے،  تاہم ایک نشست نومنتخب رکن کے انتقال کی وجہ سے خالی ہے ،  جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور نومنتخب رکن سندھ اسمبلی حافظ نعیم الرحمان کا  نوٹیفکیشن  انتخابی گوشوارے جمع نہ کرانے کی وجہ سے جاری  نہیں ہوا ہے   اور حافظ نعیم الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ وہ  نشست سے دستبردار ہوگئے ہیں ۔  گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 3 ارکان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن  تو ہواہے ، تاہم انہوں نے حلف نہیں اٹھا یا ہے، یہی پوزیشن  ایم کیوایم پاکستان کے دو ارکان کی بھی ہے۔

سندھ اسمبلی کے 168 رکنی  ایوان میں 166 ارکان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن ہوا ہے ، جن میں سے 116 پیپلزپارٹی ، 37متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، 9 تحریک انصاٖ کے حمایت یافتہ آزاد ، 3 گرینڈ دیمو کریٹک الائنس  اور ایک جماعت اسلامی کا کا رکن ہے۔

سینیٹ کے قابل تقسیم  فارمولے کے مطابق  ہر  رکن  کو 100 پوائنٹ  شمار کیا جاتا ہے ، یعنی  سندھ اسمبلی کے مجموعی طور پر  16800پوائٹس بنتے ہیں۔ ایک خالی نشست اور ایک جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان کی نشست کو الگ کردیا جائے تو  16600پوائٹس بننے ہیں۔ اس حساب سے 5 جنرل، 2 ٹیکنوکریٹ، 2 خواتین اور ایک جنرل نشست کے لئے پیپلزپارٹی کے پاس پوائٹس پورے ہیں ۔ ایک جنرل نشست کے لئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے بھی پوائنٹس پورے ہیں ۔ اصل امتحان ایک جنرل نشست کا ہے۔ 

موجودہ صورتحال میں  کو دیکھا جائے تو اپوزیشن کی تقسیم کی وجہ سے  ساتویں جنرل نشست  پیپلزپارٹی کے پاس جائے گی ۔ یعنی پیپلزپارٹی  4   پینل   19 ، 19 ارکان اور 2   پینل    20، 20 ارکان کے بنائے گی اور 116 ممبران  کے ساتھ  6 جنرل ، 2 خواتین ، 2 علماء ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی نشست پر آسانی سے کامیاب ہوگی ، یعنی مجموعی طور پر 12 میں 11 نشستوں پر پیپلزپارٹی کو کامیابی ملنے کا امکان ہے۔

پیپلزپارٹی کی ایک جنرل نشست  کم کرنے کے  تین ہی راستے ہیں ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور گرینڈ دیموکریٹک الائنس  کے ارکان  متحدہ ہوتے ہیں تو 20 ، 20 ارکان کے  2  پینل  کے ساتھ  2 جنرل نشستوں پر آسانی سے کامیاب ہوسکتے ہیں، اسی طرح  متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور تحریک انصاف بھی اتحاد کرتے ہیں تو  بھی   23، 23 کے دو  پینل  بناکر دوجنرل نشستیں اپوزیشن جیت سکتی ہے۔  تیسرا  راستہ یہی بنتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے  19 والے کسی ایک پینل سے 2 سے 3 ووٹر ز اپنا ووٹ مسترد   ہوجائیں ، مگر آخری والا آپشن بہت مشکل لگ رہاہے۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں بظاہر  متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور تحریک انصاف کا اتحاد   نظر نہیں آتا ہے۔ دونوں میں دوریاں بہت زیادہ ہیں ، تاہم سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہے۔ اب تک کی سب بڑی اہم پیش رفت فیصل واوڈا کی انٹری ہے ، عدالت سے نااہلی  کے بعد   کچھ عرصہ  وہ سیاسی طور پر  خاموش  رہے ، مگر اب انہوں نے دبنگ انٹری  تھی۔

دلچسپ با ت یہ ہے کہ  آج کل انکی قربت  صدر پاکستان آصف علی زرداری  سے بہت زیادہ ہے اور سینیٹ میں ان کے تائید و تجویز کنندگان متحدہ قومی موومنٹ پاکستان  کے ہیں۔ عام انتخابات 2018 ء میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 اور سینیٹ انتخابات  2021ء میں فیصل واوڈا کی  کامیابی بہت دلچسپ  اور غیر معمولی انداز میں ہوئی  تھی اور اب بھی انکو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔

بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ   متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ایک جنرل نشست  اپنی محفوظ رکھے گی اور ممکن ہو کہ وہ نشست  فیصل واوڈا کے امیدوار بننے کی شکل میں ہو۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان دوسری جنرل نشست کے لئے  گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس  سے بذات خود یا امیدوار کے ذریعے  رابطہ کرکے قائل کرسکتی  ہے۔ ایسی صورت میں وہ امیدوار فیصل واوڈا  ہی نظر آتے ہیں ۔  جو لوگ اس امید پر بیٹھے ہیں کہ  پیپلزپارٹی   چھٹی جنرل نشست سے آسانی کے ساتھ دستبردار ہوگی ، یہ انکی غلط فہمی ہے، تاہم  یہ بھی ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی  کے جنرل نشست پر ایک آدھ امیدوار میں تبدیلی  آجائے  اور پھر کسی اہم نئے امیدوار کو جگہ ملے ۔

اب یہاں اپوزیشن  (ایم کیوایم پاکستان، جی ڈی اے ، پی ٹی آئی  اور جماعت اسلامی ) کا امتحان ہے کہ وہ کس حکمت عملی کے ساتھ  دو جنرل نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔  اصل صورتحال تو امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجراء کے بعد ہی واضح ہوگی۔

انتخابی شیڈول کے مطابق 19 مارچ تک کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہوگی، 21 مارچ تک منظور یا مسترد ہونے والے کاغذات نامزدگی کے خلاف ٹربیونل کے اپیلیں جمع ہونگی اور 25 مارچ تک ٹربیونل میں فیصلے ہونگے۔

نظر ثانی فہرست 26 مارچ کو جاری ہوگی اور 27 مارچ تک امیدوار کاغذات واپس لے سکیں گے اور امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہوگی۔

سینیٹ کی 48 نشستوں کے لیے 2 اپریل کو صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ ہوگی۔

Spread the love
جواب دیں
Related Posts