رواں سال سن دوہزار تئیس ،چودہ سو چوالیس ہجری کے مناسک حج کا آغاز ہوگیا۔ دنیا بھر سے 20 لاکھ کے قریب عازمین اس سال فریضہ حج کی ادائیگی کررہے ہیں۔
حج کے رکن اعظم کیلئے منیٰ کے 21 لاکھ 92 ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلی دنیا کی سب سے بڑی خیمہ بستی آباد ہوگئی ہے۔ عازمین حج قافلوں کی صورت تلبیہہ کہتے ہوئے منیٰ پہنچ رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق مقدس مقامات پربہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔9 اسٹیشنز پر 17 ٹرینیں فعال ہیں۔ یہ فی گھنٹہ 72 ہزارعازمین کوخدمات مہیا کررہی ہیں۔ چوبیس ہزار بسیں بھی مسلسل عازمین حج کو سفر کی سہولیات فراہم کررہی ہیں۔
عازمین حج کے لیے منیٰ میں دنیا کی سب سے بڑی خیمہ بستی جدید سہولتوں کے ساتھ بسائی گئی ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی خصوصی ہدایات اور نگرانی میں حاجیوں کی ہر ممکن خدمت کی جارہی ہے۔
عازمین حج آج کی رات منیٰ میں ہی قیام کریں گے اور کل نماز فجر کی ادائیگی کے بعد میدان عرفات کے لیے روانہ ہوں گے جہاں حج کا رکن اعظم ’’وقوف عرفات‘‘ ادا کیا جائے گا۔
مناسک حج 8 ذی الحج سے 12 ذی الحج تک ادا کیے جاتے ہیں۔ عازمین متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے چل پڑتے ہیں۔ کعبہ پہنچ کرطواف قدوم کرتے ہیں۔ پھرمنٰی روانہ ہوتے ہیں۔وہاں یوم الترویہ گزار کرمیدان عرفات کے لیے چل پڑتے ہیں۔
میدان عرفات میں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے۔ یہ دن یوم عرفہ کہلاتا ہے۔اس روز حج کا رکن اعظم یعنی خطبہ حج سنا جاتا ہے۔اورعازمین حجاج کرام کی سعادت سے سرفراز کیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد رمی جمرات یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے کا مرحلہ آتا ہے۔ حجاج جمرہ عقبہ جاتے ہیں۔ وہاں سے واپسی پرطواف افاضہ کیا جاتا ہے۔ اور پھرمنی جاکرایام تشریق گزارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج پھر مکہ پہنچ کرطواف الوداع کرتے ہیں،اوریوں حج کے مناسک مکمل ہوتے ہیں۔
عالمی وبا کورونا کے بعد چار برس بعد اس سال پوری گنجائش کے ساتھ حج ادا کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر سے لگ بھگ 20 لاکھ عازمین فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب آئے ہیں۔
خادم حرمین شریفین کی دعوت پر دنیا کے 90 ممالک سے 1300 شخصیات کو شاہی مہمان کے طور پر حج کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار فلسطینی بھی حج کے لیے مدعو کیے گئے ہیں جن کا تعلق شہدا اور زخمیوں کے اہلخانہ سے ہے۔