کراچی میں پولیس نے ہل پارک کے علاقے میں نایاب نسل کے کتے کو مارنے کے الزام میں ایک کانسٹیبل سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فیروز آباد پولیس نے بریگیڈ پولیس کے کانسٹیبل علی حسن شاہ اور چار دیگر افراد مصطفیٰ، وحید کوہاٹی، علی اور خالد اٹک والا کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 429 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
دفعہ 429 کسی بھی قیمت یا پچاس روپے قیمت کے حامل کسی بھی جانور وغیرہ کو مارنے یا معذور کرنے سے متعلق ہے۔ جسکے مطابق جو کوئی بھی ہاتھی، اونٹ، گھوڑا، خچر، بھینس، بیل، گائے یا بیل، جو بھی اس کی قیمت ہو یا پچاس روپے کی قیمت کے کسی دوسرے جانور کو مار کر، زہر دے کر، معذور کر کے یا نقصان پہنچا کر فساد پھیلاتا ہے اسے پانچ سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔
دفعہ 34 کا تعلق کئی افراد کی طرف سے مشترکہ مقصد کے تحت کسی عمل کو انجام دینے سے متعلق ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج(شرقی) نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ شکایت کنندہ ریاض حسین کا بیان ریکارڈ کرے اور قابلِ سماعت جرم ثابت ہونے پر مقدمہ درج کرے۔
شکایت کنندہ کے مطابق پولیس نے مصطفیٰ اور کوہاٹی کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ کانسٹیبل علی حسن شاہ سمیت تین دیگر افراد ابھی تک مفرور ہیں۔ شکایت کنندہ کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 40 سالوں سے ہل پارک محلے کے مختلف ہوٹلوں میں ویٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب الائیڈ اسکول کی ایک خاتون ٹیچر نے انہیں ایک نایاب نسل کے کتے کا تحفہ دیا تھا جسے ’مجورکا شیفرڈ‘ کہا جاتا ہے۔
ریاض حسین نے کہا کہ انہوں نے کتے کو دو سال تک پالا اور اس کا نام جوجی رکھا، کانسٹیبل علی حسن شاہ اور مصطفیٰ نے کچھ دن پہلے ان سے کتا دینے کو کہا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے انکار پر انہوں نے میرے ساتھ بدسلوکی کی اور مجھے یہ کہہ کر دھمکایا کہ کتے کے دن گنے جا چکے ہیں، 9 فروری کی رات وہ سونے چلے گئے اور اگلی صبح دیکھا تو کتا لاپتا تھا۔ کتے کے مالک نے بتایا کہ بعد میں اس نے کتے کی لاش کو کپڑے کے ٹکڑے میں لپٹا ہوا پایا جس کا گلا کٹا ہوا تھا۔
اس سے قبل، انہوں نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے فیروز آباد پولیس سے رابطہ کیا تھا لیکن اہلکاروں نے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار کر دیا تھا۔