بھارت کو پاکستان پر فضائی حملوں میں ہزیمت کا سامنا کرنے کے بعد ڈرون کاروائیوں میں بھی مسلسل منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ پاکستان اب تک بھارت کے درجنوں ڈرون کونشانہ بنا کر گرا چکا ہے ۔
مگر ایک سوال جو ہر عام شہری کے زہن میں ابھر رہا تھا اور انہیں پریشان کر رہا تھا کہ آخر یہ ڈرون پاکستانی کے مختلف شہروں تک پہنچ کیسے رہا ہے ۔اور پنڈی سے کراچی تک ہم اسے روک کیوں نہیں رہے ۔
دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان ان ڈرون کو انٹر سیپٹ کرنے اور مار گرانے کی بھر پور صلاحیت اور مہارت رکھتا ہے ۔اور بھارت کی جانب سے آنے والے ہر ڈٓرون کو گرا بھی رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ جو بھی چیز پاکستان کی طرف آتی ہے اس پر پاکستان کی نظر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہ ہمیں پتا ہے کہ ان کو کہاں گرانا ہے، کس طرح گرانا ہے۔ اور حقیقت میں اسے گرایا بھی جارہا تھا ۔
لیکن کون سی حکمت عملی کے تحت انہیں آگے تک آنے دیا جارہا ہے اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بھارت کی جانب سے بھیجے جانے والے اسرائیلی ساختہ ہاروپ ڈرون کیسے کام کرتے ہیں ۔
ماہرین کےمطابق ہاروپ ایک جدید اور خود کار خود کش ڈرون ہے جو لانچنگ کے بعد کسی مخصوص علاقے میں پہنچ کر مشن کو مکمل کرنے کے لئے گھنٹوں رک کر حدف کی تلاش کے لئے جاسوسی کرتا ہے اور حدف ملتے ہی اس تک پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیتاہے ۔ یہ ڈرون 1000کلومیٹر کی رینج میں نو گھنٹے تک پرواز کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو متحرک یا ٹہرے ہوئے ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بھارت کی جانب سے ان ڈرون حملوں کا مقصد پاکستان کے ائر ڈیفنس سسٹم کو متحرک کر کے ان کی لوکیشن جاننا اور اس پر حملہ آور ہو نا ہے ۔ عسکری ماہرین کے مطابق لاہور میں ایک ڈرون کو انگیج کر کے اسے گراؤنڈ بیسڈ ائیر ڈیفنس سسٹم سے میزائل کے ذریعے مارا گیا۔
دشمن یہ چاہتا تھا کہ اسرائیلی ساختہ ڈرونز کے زریعے پاکستان کو اشتعال دلا کر پاک فوج کے سسٹمز کی پوزیشن معلوم کی جا سکے۔ اس لئے پہلی کاروائی کے بعد پاک فوج نے فوری طور پر حکمت عملی تبدیل کی اور لانگ رینج ائیر ڈیفنس میزائل سسٹمز استعمال کے بجائے سوفٹ کِل اور ہارڈ کِل ہتھیاروں سےگرایا گیا ۔