Karachi
Current weather
Humidity-
Wind direction-

سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟

سندھ طاس معاہدہ یا  Indus Waters Treaty  ایک تاریخی معاہدہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے کیا گیا تھا تاکہ پانی پر کوئی جنگ یا تنازع نہ ہو۔

اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ جنگوں اوراختلافات کے باوجود 65 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔

اس معاہدے کی ضرورت 1948 میں اُس وقت پیش آئی جب بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کردیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث عالمی برادری متحرک ہوئی اور 19ستمبر 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔

زرعی ملک ہونے کے وجہ سے پاکستان میں کاشت کاری کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے حاصل ہونے والے پانی پر ہوتا ہے۔

ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے کافی اہم ہے۔ اس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کاحق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہےجبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔

چوں کہ مغربی دریاؤں میں سے کئی کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا، اس لیے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی لیکن بھارت نے معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ بھارت کی طرف سے ماضی میں متعدد بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور پاکستانی دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کرکے پاکستان آنے والے پانی کو متاثر کیا گیا۔

سندھ طاس معاہدے کے سابق ایڈیشنل کمشنر شیراز میمن  نے بی بی سی سے گفتگو کر تےہوئے کہا کہ معاہدے کے تحت پانی کے بہاو کق ڈیتا شیئرکرنے کے لئے سال میں کم از کم ایک مرتبہ واٹر کمشنرز کا اجلاس ہونا ضروی ہے ۔ تاہم بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث کئی برسوں سے یہ اجلاس منعقد نہیں ہو پا رہا ۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کے مطابق انڈیا کو یکطرفہ اس معاہدے کو منسوخ یا معطل کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔  تاہم دونوں ممالک باہمی رضامندی سے اس معاہدے میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اس معاہدے سے لوگوں کی بقا جڑی ہوئی ہے، اس وجہ سے اس معاہدے کا معطل ہونا دونوں ممالک کو جنگی صورتحال کی طرف لے جا سکتا ہے۔

Share this news

Follow Times of Karachi on Google News and explore your favorite content more quickly!
جواب دیں
Related Posts