قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 213 عمرکوٹ کے ضمنی انتخاب کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تمام ضروری انتخابی سامان متعلقہ حکام کے حوالے کر دیا ہے۔ شیڈول کے مطابق ضمنی انتخاب 17 اپریل 2025ء کو ہوگا۔ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن اتحاد کے درمیان انتخابی تنازعات اور الزامات میں شدت آ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی ماضی کی طرح بہتر پوزیشن میں اپنی جیت کی روایت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ اپوزیشن اتحاد پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے بھرپور انداز میں سرگرم ہے۔ ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد اور6 نہروں کے مسئلے پر عوام کے بڑھتے ہوئے غصے نے حکمران جماعت کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ حالیہ دنوں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ذوالفقارجونیئرکی اپوزیشن اتحاد جی ڈی اے کے سرگرمیاں بھی پریشانی کا سبب ہے۔
حلقے کا تعارف!
ضلع عمرکوٹ پہلی بار 1993ء میں قائم ہوا، تاہم 2002ء میں اسے تحلیل کر کے دوبارہ میرپور خاص میں شامل کر دیا گیا اور 2004ء میں اسے بحال کر دیا گیا۔ ضلع عمرکوٹ انتظامی طور پر چار تعلقوں یعنی کنری، عمرکوٹ، سمارو اور پتھورو پر مشتمل ہے۔ اس ضلع میں قومی اسمبلی کی ایک نشست این اے 213 اور سندھ اسمبلی کی تین نشستیں (پی ایس 49، پی ایس 50 اور پی ایس 51) شامل ہیں۔ عام انتخابات 2024ء میں ان تینوں نشستوں پر بالترتیب پیپلز پارٹی کے سید ردار شاہ، نواب تیمور ٹالپور اور سید امیر علی شاہ کامیاب ہوئے۔ مردم شماری 2023ء کے مطابق ضلع عمرکوٹ کا کل رقبہ 5,608 مربع کلومیٹر اور کل آبادی 11,59,831 ہے، جن میں 606,812 مرد، 552,994 خواتین اور 25 خواجہ سرا شامل ہیں۔ ضلع میں کل 6,09,000 ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔ آبادی میں 900,972 شہری اور 258,859 دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ مذہبی لحاظ سے 519,276 مسلمان، 501,989 ہندو جاتی، 131,125 شیڈول کاسٹ، 3,093 قادیانی، 2,702 عیسائی، 36 سکھ اور 63 دیگر مذاہب کے افراد شامل ہیں۔ ضلع عمرکوٹ پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں 55 فیصد سے زائد آبادی غیر مسلم ہے۔
بااثر طبقات!
ضلع عمرکوٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء مخدوم شاہ محمود قریشی کی غوثیہ جماعت، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سربراہ پیر صاحب پگارا کی حر جماعت، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء مخدوم جمیل الزمان کی سروی جماعت اور شاہ گروپ کے مریدین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تاہم سیاسی طور پر شاہ گروپ اور ٹالپور گروپ کا غلبہ رہا ہے۔ حلقے میں غیر مسلم ہندو جاتی اور شیڈول کاسٹ کی آبادی کل آبادی کا تقریباً 55 فیصد ہے، لیکن یہ طبقہ زیادہ تر ہاری اور غریب ہونے کی وجہ سے سیاسی اثر و رسوخ حاصل نہیں کر سکا۔
ضمنی انتخاب 2025ء!
قومی اسمبلی کی نشست این اے 213 عمرکوٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب محمد یوسف ٹالپور کے 18 فروری 2025ء کو انتقال کے باعث خالی ہوئی۔ اس نشست پر 17 اپریل 2025ء کو ضمنی انتخاب ہوگا۔ مجموعی طور پر 18 امیدوار میدان میں ہیں، تاہم اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کی امیدوار اور مرحوم نواب محمد یوسف ٹالپور کی اہلیہ محترمہ صباء ٹالپور اور اپوزیشن اتحاد کے مشترکہ امیدوار لال چند المعروف لال مالھی کے درمیان متوقع ہے۔ اپوزیشن اتحاد میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جمعیت علماء اسلام پاکستان (جے یو آئی پی)، سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یوپی)، ارباب غلام رحیم گروپ اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار پیر آغا محمد عمر جان سرہندی بھی میدان میں ہیں۔
ماضی کی یاد!
این اے 213 عمرکوٹ کا موجودہ ضمنی انتخاب 2004ء میں ہونے والے این اے 229 تھرپارکر کے ضمنی انتخاب کی یاد دلا رہا ہے، جب مسلم لیگ (ق) نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے قریبی عزیز ارباب ذکاء اللہ کی نشست خالی کرائی تھی۔ اُس وقت پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر مہیش ملانی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی اور وفاقی و صوبائی حکومت کو سخت چیلنج دیا۔ اگرچہ انتخابی نتائج یکطرفہ رہے اور پیپلز پارٹی نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ اس بار بھی اپوزیشن اتحاد کی جانب سے حکومت پر دھاندلی کے سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق شفاف انتخابات کے لیے تمام ضروری اقدامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
مقابلہ!
اس نشست کے انتخابی ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو 1970ء سے 2024ء تک پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری رہا ہے (رپورٹ کے ساتھ منسلک تفصیلی چارٹ ملاحظہ کریں)۔ نواب یوسف ٹالپور 1993ء سے اس حلقے سے انتخابی سیاست میں سرگرم اور 2024ء تک کے تمام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب رہے، تاہم 1997ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پیر نور محمد شاہ جیلانی سے تقریباً ساڑھے 6 ہزار ووٹوں سے ہارے تھے۔ پہلی بار ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پہلی مرتبہ سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں اہم مذہبی و روحانی جماعتوں کا اتحاد اور اپوزیشن گروپوں کی مشترکہ حمایت شامل ہیں۔ مزید یہ کہ6 نہروں کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کےخلاف شدید عوامی ردعمل پایا جاتا ہے۔ اپوزیشن اتحاد اس ضمنی انتخاب میں نعرہ لگا رہا ہے "سندھ دریا پر ظلم کا بدلہ ووٹ سے لیں گے!”
اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار لال چند المعروف لال مالھی ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی اورمتحرک سیاسی رہنما کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔اس حلقے سے 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے مرکزی مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 6 نہروں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے، اور اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی کے لیے یہ انتخاب یکطرفہ ہو سکتا تھا، خاص طور پر اس لیے کہ ان کی امیدوار مرحوم یوسف ٹالپور کی اہلیہ ہیں۔ مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی کے لیے صوبائی، ضلعی اور نچلی سطح پر حکومتی و انتظامی حمایت ایک بڑا سہارا ہے۔ ان کے نزدیک پیپلز پارٹی کے لیے اصل چیلنج جیت نہیں بلکہ بڑے مارجن سے جیت حاصل کرنا ہے، جبکہ اپوزیشن اتحاد کے لیے کامیابی یا معمولی فرق سے شکست بھی ایک بڑی کامیابی سمجھی جائے گی اور پیپلزپارٹی کو دھچکا پہنچانے میں کامیاب رہیں گے۔ دیہی سندھ میں اس وقت یہ ضمنی انتخاب جنگ کی شکل اختیار کرگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دونوں فریق مکمل زور لگارہے ہیں۔ جی ڈی اے کی مرکزی قیادت اور تحریک انصاف کراچی کے مختلف رہنماء انتہائی متحرک ہیں۔