چاندی کا تخت گرد کٹہرا، پشت پر تکیہ، آگے تین سیڑھیاں، نیچے پایوں میں خوبصورت پھول،’دائیں طرف ملکہ مسند پر سر سے پاوں تک سونے، موتی، جواہر میں ڈوبی ہوئیں، بائیں طرف شہزادیاں بناؤ سنگار کیے،سامنے پہرے دارعورتیں، اور کنیزوں کی فوج ۔ یہ منظر ہے عید الفطر پر سجے شاہی دربار کا جہاں روایتی مذہبی تہوار پورے شان و شوکت سے منایا جاتا تھا
مورخین کے مطابق چاند کا اعلان نقار خانے کے دروازے کے سامنے حوض پر پچیس توپیں چلا کر کیا جاتا تھا۔ نماز عید کی ادائیگی کے بعد بادشاہ اور ملکہ غریبوں اور ضرورت مندوں میں بڑی مقدار میں رقم، کپڑے، کھانا اور مٹھائیاں تقسیم کرتے اور پھرانواع و اقسام کے کھانوں سے بھرا شاہی دستر خوان سجتا کنیزیں اور خدام رکابین تھامے متحرک رہتے
مغل سلطنت میں عید
مغل بادشاہوں کے دربار میں عید انتہائی شان و شوکت سے منائی جاتی تھی۔ بادشاہ نمازِ عید کے بعد عام رعایا سے ملاقات کرتے، انہیں تحائف دیتے اور خیرات تقسیم کرتے۔ شاہی محل میں خاص پکوان تیار کیے جاتے، جن میں شیر خورمہ، بریانی اور دیگر روایتی کھانے شامل ہوتے۔ درباری لباس بھی مخصوص انداز میں تیار کیا جاتا، اور مہمانوں کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جاتی۔
عثمانی سلطنت میں عید
عثمانی خلافت میں بھی عید ایک عظیم الشان تقریب ہوتی تھی۔ سلطان نمازِ عید کے بعد عوام کے درمیان آتے، ان کی شکایات سنتے اور مستحقین میں صدقات تقسیم کرتے۔ محل میں جشن کے ساتھ ثقافتی سرگرمیاں، موسیقی اور رقص کی محفلیں منعقد کی جاتیں۔ فوجی اور حکومتی عہدیدار بھی نئے لباس میں بادشاہ سے ملاقات کرتے اور وفاداری کا عہد دہراتے۔
عید کی مشترکہ روایات
دونوں سلطنتوں میں عید کا تہوار خوشیوں، سخاوت اور بھائی چارے کی علامت تھا۔ شیر خورمہ جیسی میٹھی سوغاتیں، دربار کی رونقیں، اور رعایا میں انعامات و خیرات کی تقسیم عید کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ ان روایات نے تاریخ میں تہذیبی و ثقافتی ورثے کو زندہ رکھا، جس کی جھلک آج بھی مسلم دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔