Karachi
Current weather
Humidity-
Wind direction-

دریائے سندھ سے 6نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ،اصل مسئلہ کیا ہے؟

تصویر ایک جانب نئی نہر جبکہ دوسری جانب دریائے سندھ میں پانی کی کمی کی عکاسی کر رہی ہے
تصویر ایک جانب نئی نہر جبکہ دوسری جانب دریائے سندھ میں پانی کی کمی .کی عکاسی کر رہی ہے

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت ہی اس ملک کی معیشت کو ایک بڑا سہارا دئیے ہوئے ہے ۔ جس میں سب سے بڑا حصہ صوبہ پنجاب کا ہے جس کے بعد سندھ زرعی پیداوار کے حوالے سے دوسرا بڑا صوبہ ہے ، جسکی زراعت کا دآرومدار دریائے سندھ ہےجس میں سے 6 مجوزہ کینالیں نکالنے کا معاملہ متنازعہ بنا ہوا ہے

ایس آئی ایف سی
پاکستان میں زراعت ، آٹی سیکٹر، معدنیات، توانائی اور سیاحت کے شعبے میں بین الاقوامی سرمایہ کاری میں اضافے اور سرمایاکاروں کی سہولت کیلئے وزیر اعظم اور آرمی چیف کی سربراہی میں جون سال 2023 میں اسپیشل انوسمنٹ فیسیلٹیشن کونسل قائم کیا گیا ۔
اس ادارے کی جانب سے ‘گرین پاکستان انیشی ایٹو’ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت ملک کے چاروں صوبوں میں 48 لاکھ ایکڑ بنجر زمین حکومت سے لیز پرحاصل کرکے اسے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ان بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے دریائے سندھ سے 6 نہریں نکالی جائیں گی۔ بظاہر یہ ایک شاندار منصوبہ معلوم ہوتا ہے ، لیکن نہ صرف سندھ کی عوام ، پیپلز پارٹی کی قیادت ، صدر آصف علی زرداری اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب بھی اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں

سیاسی قائدین کے تحفظات
تحفظات سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ سندھ کی قیادت اور بلخصوص عوام دونوں کو اس منصوبے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اسی حوالے سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے اس منصوبے کی مخالفت کر تے ہوئے کہا کہ ” دریائے سندھ کےنظام سے مزید نہریں نکالنے کا فیصلہ یک طرفہ ہے، اس تجویز کی بطور صدر میں حمایت نہیں کر سکتا”
دوسری جانب اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ "آصف زرداری ہو یا بلاول بھٹو دونوں سندھ کا پانی بیچنے جا رہے ہیں”
سندھ اسمبلی میں بھی متنازعہ نہروں کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اس معاملے پر کہا کہ
"سندھ کے پانی کے حقوق پر ڈاکہ قبول نہیں کیا جائے گا اور ہم ان کینال کی اجازت نہیں دیں گے "

منصوبے کا دفاع
وفاقی وزیرِ آبی وسائل مصدق ملک نے اس منصوبے کا دفاع کیا اور کہا کہ
” اس منصوبے میں چاروں صوبوں اور ملک کا فائدہ ہے” مصدق ملک نے سوال اٹھایا کہ اگر سندھ حکومت کو اعتراض ہی تھا تو پھر اس منصوبے کے لیے آخر زمین دی ہی کیوں ؟
اس مسئلے پر سیاست اور سیاسی بیان تو ایک طرف مگر آخر اصل مسئلہ ہے کیا ؟

ماہرین اور مبصرین کے مطابق
پنجاب میں چولستان کے علاقے میں کینال بنائی جا رہی ہے جسے پنجاب اپنے حصے سے پانی دے گا۔ چولستان کینال سے بہاول نگر، بہاولپور کے ریگستان یعنی چولستان میں چھ لاکھ ایکڑ اور گریٹر تھل کینال فیز ٹو سے 15 لاکھ ایکڑ زمین آباد کی جاسکے گی
دوسری جانب صوبہ سندھ جس کی زراعت کا دآرومدار 90 فیصد دریائے سندھ کے پانی پر ہے ۔ جو پہلے ہی وفاق سے 1991ء کے پانی کے معاہدے کے باوجود پانی کی غیر منصفانہ تقسیم پر شکوہ کرتا دیکھائی دیتا ہے

مبصرین کے مطابق یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان میں پانی کی تقسیم کے ادارے ارسا کے مطابق 1991 کے بعد سے پاکستان کو مسلسل پانی کی کمی کا سامنا رہا ہے۔ ایسے میں جب آباد زمینوں کے لیے ہی پانی پورا نہیں ہے تو نئی نہروں کے لیے پانی کہاں سے آئے گا۔
معاشی ماہر قیصر بنگالی اس خدشے کا بھی اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں پانی محدود ہے۔ اگر گرین انیشیٹیو پروگرام کے تحت بنجر زمین آباد کئی جائے گی تو پاکستان کی آباد زرعی زمین غیر آباد ہو جائیں گی جو پاکستان کی معیشت کے لیے خطرہ ہے۔

ارسا حکام کا موقف :
اس تمام مسئلے پر(ارسا ) یعنی انڈس ریور سسٹم اتھارٹی جو پاکستان میں دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کیلئے بنایا گیا سرکاری ادارہ ہے، کے مطابق کینالز کو بنیادی طور پر سیلابی پانی کو جمع کرنے اور اس پانی سے زمینوں کا سیراب کرنے کیلئے بنایا جا رہا ہے ۔ ارسا ترجمان خالد ادریس نے کہا کہ چولستان کینال کو دریائے سندھ سے نہیں بلکہ دریائے چناب یا جہلم سے پانی دیا جائے گا۔ لہذٰا اسے دریائے سندھ سے پانی دیے جانے کی بات درست نہیں ہے۔

پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہونے کے باعث پانی کی کمی کا سامنا کررہا ہے ۔ بارشوں کی کمی ،شمالی علاقوں میں گلئشیر کا پگھلنا اور زیر زمین پانی کی کمی کے باعث ملک میں خشک سالی کے بادل منڈلا رہے ہیں ، ایسے میں منصوبوں پر اعتراض اُٹھانے والے صوبوں اور اسکی عوام کےتحفظات کو دور کیئے بغیر نئے کینالوں کی تعمیر سے نا صرف ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی بلکہ حکومت اور سیاستدان دونوں ہی عوام کا اعتماد بھی کھو دیں گے .

Share this news

Follow Times of Karachi on Google News and explore your favorite content more quickly!
جواب دیں
Related Posts