وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انتباہ کیا ہے کہ شہباز شریف حکومت نے چولستان منصوبے کی حمایت ترک نہیں کی تو پیپلزپارٹی حکومت گرانے کی طاقت استعمال کرسکتی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اعلان کریں کہ کینالز منصوبے کی حمایت نہیں کرتے ہیں، دریائےسندھ ہماری زندگی ہے، وفاق کو ہماری بات ماننی پڑےگی، پاکستان پیپلز پارٹی میں چولستان پروجیکٹ کو روکنے کی طاقت، صلاحیت اور اختیار موجود ہے، اگر ضرورت پڑی تو یہ طاقت استعمال کی وفاقی حکومت کرانے میں استعمال کی جائے گی۔ یہ بات انہوں نے ہفتہ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں میڈیا سے کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزراء شرجیل انعام میمن اور صوبائی وزیر جام خان شورو بھی موجود تھے۔
سید مراد علی شاہ نے کہاکہ ہم سندھ کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہیں جنہیں انہوں نے پاکستان کے عوام کے حقوق قرار دیا۔ تاہم اگر ہمارے خدشات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر انتہائی اقدامات کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پیپلز پارٹی کی آواز یا سندھ کے عوام کی آواز سنی گئی ہے اسی لیے پنجاب حکومت نے چولستان کینال کی تعمیر پر مختص کردہ 45 ارب روپے استعمال نہیں کیے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو ہٹانے میں کردار ادا کرے لیکن ہم انکے ایجنڈے پر عمل نہیں کریں گے۔ سندھ حکومت کی درخواست پر چولستان کینال پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا۔ تاہم ممکنہ سرمایہ کاروں کو دکھانے کے لیے ایک چھوٹا ماڈل تیار کیا گیاہے۔ کینال منصوبے عام طور پر بالائی علاقوں سے شروع ہوتے ہیں لیکن جب انکی ٹیم فروری میں مقام پر گئی تو وہاں کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ بھارتی سرحد کے قریب ایک کینال کا دورہ کریں جب وہ وہاں گئے تو انہیں پتہ چلا کہ وہاں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 1999ء سے 2024ء تک تربیلا ڈیم صرف 17 دنوں کے لیے اپنی مکمل گنجائش تک پہنچا ہے جبکہ منگلا ڈیم صرف 4 دنوں کے لیے بھرا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا اگر ہم اپنے ڈیمز کو بھرنے سے قاصر ہیں تو وفاقی حکومت کی جانب سے تجویز کردہ نئی نہریں کیسے بہائی جائیں گی؟ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت 218 ارب روپے تھی جو اب بڑھ کر 225 ارب روپے ہو چکی ہے اور مزید جائزہ لینے پر لاگت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اصل منصوبے کے مطابق چنیوٹ میں ایک ڈیم تعمیر کیا جانا تھا جو تین ارب ڈالر کا منصوبہ تھا۔ پنجاب حکومت نے 218 ارب روپے کے پی سی ون میں ذکر کیا تھا کہ وہ پہلے سال 45 ارب روپے خرچ کریں گے جس کے نتیجے میں اب تک ایک پیسہ بھی استعمال نہیں ہوا۔ چولستان کینال نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے لیے خطرہ ہے اسی لیے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چولستان کینال تعمیر ہو چکی ہے، اسی لیے سندھ کو پانی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ منصوبے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ حقیقتاً اس وقت کوئی کام نہیں ہو رہا۔ میڈیا کو چاہئے کہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے میں مدد کریں کہ منصوبہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ انہوں نے تاریخی پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ چولستان کو آبپاشی نہروں سے ترقی دینے دلانے کا خیال 1919ء کا ہے لیکن انگریزوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ نگران حکومت کے دور میں پنجاب حکومت نے ارسا سے پانی کی تقسیم کیلئے این او سی حاصل کرنے کی کوشش کی یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ پانی کا بہاؤ کافی ہے تاہم وقت کے ساتھ بہاؤ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 1976ء سے 1999ء تک کوٹری میں پانی کا اوسط بہاؤ 2023ء تک ڈرامائی طور پر کم ہو چکا ہے اور مسلسل گراوٹ جاری ہے۔ انہوں نے پنجاب کو اضافی پانی کی تقسیم کے جواز پر سوال اٹھایا اور زور دیا کہ سندھ کے وسائل پہلے ہی دباؤ میں ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے صدر زرداری کے منصوبے کی منظوری کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منصوبوں کی منظوری متعلقہ حکومتی اداروں کے دائرہ کار میں آتی ہے اور اس کیلئے صوبائی اتفاق رائے درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سندھ اسمبلی نے اس منصوبے کے خلاف قرارداد منظور کی ہے جس میں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتیں یکجا ہیں۔ مراد شاہ نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ اس منصوبے کو مسترد کر دیں جب تک کہ مناسب مشاورتی عمل نہ ہو اور انہوں نے اس بات کو پھر دہرایا کہ حتمی فیصلہ وفاقی حکومت اور سی سی آئی کا ہے جو ابھی تک اس معاملے پر اجلاس نہیں کر پائی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس معاملے کو یکسر حل کرنے کیلئے کونسل آف کامن انٹرسٹ (CCI) کا اجلاس بلایا جائے۔
ایک سوال پر سید مراد شاہ نے کہا کہ گرین پاکستان انیشیٹیو کے تحت پنجاب حکومت نے نگران حکومت کے دوران تقریباً 1.2 ملین ایکڑ زمین مختص کی۔ اس منصوبے میں زیر زمین پانی استعمال کرتے ہوئے سولر ٹیوب ویلز نصب کیے جا رہے ہیں۔ 50 سے زائد سولر ٹیوب ویلز لگائے جا چکے ہیں، کاشتکاری شروع ہو چکی ہے اور زمین کو ہموار کیا جا چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ’’ایگری مال‘‘ کا تصور بھی متعارف کرایا گیا ہے جہاں کسانوں کو ایک ہی جگہ کھاد اور دیگر ضروری سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ اس پورے منصوبے کا پی سی ون دستیاب ہے اور کارپوریٹ فارمنگ کیلئے زمین مختص کی گئی ہے۔ کوئی بھی بڑا سرمایہ کار 5000 ایکڑ زمین حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم میری معلومات کے مطابق کسی نے ابھی تک دلچسپی نہیں دکھائی۔ سندھ میں گرین منصوبوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ عمرکوٹ، دادو اور بدین میں 54000 ایکڑ زمین گرین منصوبوں کیلئے مختص کی گئی ہے۔ اگر مختص کردہ زمین پر کوئی آبادی ہو تو اسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ عمرکوٹ میں دستیاب پانی کا استعمال کرتے ہوئے کاشتکاری شروع ہو چکی ہے۔ وہ منصوبے جو سندھ اور ملک دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں گے انہیں حمایت حاصل ہوگی لیکن نئی کینال کی تعمیر کسی قیمت پر نہیں ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور آرمی چیف نے پنجاب میں گرین پاکستان انیشیٹیو کا آغاز کیا نہ کہ نئی کینال کا۔ آرمی چیف نے حال ہی میں کراچی کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے ایک ٹیکنالوجی پارک کا افتتاح کیا اور وہ انکے ہمراہ تھے۔ آرمی چیف ایک اکنامک زون اور گولف کورس کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں۔ حیدرآباد-سکھر موٹروے کی تعمیر کے حوالے سے ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے وفاقی حکومت کو حیدرآباد-سکھر موٹروے کی تعمیر کیلئے شراکت کی پیشکش کی ہے۔ وفاقی حکومت نے پنجاب میں 18 میٹر ٹریک کی تعمیر کی منظوری دی ہے نہ کہ نئی موٹروے کی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر جب کینالز نہیں تھیں تو سیلابی نہری نظام کے ذریعے سندھ میں چار ملین ایکڑ زمین کاشت ہوتی تھی جبکہ پنجاب میں صرف ایک ملین ایکڑ ہوتی تھی۔ 2018ء میں کی گئی ایک تحقیق میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ 4122 کیوسک پانی ایک نہر کے ذریعے موڑ دیا جائے گا۔ 17 جنوری 2024ء کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) نے منظوری دے دی جس پر سندھ نے اختلاف کیا۔ سیلاب کے دوران پنجاب حکومت کی طرف سے تیار کردہ منصوبے کے مطابق چناب اور ستلج دریاؤں میں کافی مقدار میں پانی آتا ہے جسے وہ زائد سمجھتے ہیں اور یہ پانی چولستان نہر میں منتقل کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چولستان منصوبے نے تین صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ سندھ میں عوام شدید احتجاجی موڈ میں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہاں، میں 1991ء کے معاہدے کی مخالفت کرتا ہوں، خاص طور پر اس لیے کہ یہ 1945ء سے لے کر موجودہ مسائل کو حل کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا پنجاب نے کچھ نئے آبی ذرائع بنائے اور اس معاہدے کے ذریعے انہیں قانونی حیثیت دے دی گئی۔ ایک اور شق میں کہا گیا ہے کہ ہر صوبے کو نئی آبی نہریں بنانے کی اجازت ہے جو آبپاشی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ دریاؤں کے حقیقی مالک وہ لوگ ہیں جو ان کے کناروں پر رہتے ہیں یعنی پاکستان کے عوام۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تاریخی طور پر سی سی آئی نے عمران خان کے دور کو چھوڑ کر تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے ہیں جس دوران سندھ حکومت نے مردم شماری کی مخالفت کی تھی اور معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا گیا تھا۔ ہر اجلاس میں انہوں نے چولستان کینال کی مخالفت کی اور وفاقی وزراء اور دیگر ذمہ داران کو قائل کیا کہ یہ کینال تعمیر نہیں کی جا سکتی، اسی لیے منصوبہ روک دیا گیا ہے۔